ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
ذکر کو چھوڑ دو اور راحت و سکون اختیار کرو اور کسی طبیب کے مشورہ سے دماغ کی اصلاح کرو - یہ علم نہیں ہے فساد دماغ اور مادہ مالیخو لیا ہے مولوی صاحب نے لکھا آپ نے غور نہیں فرمایا یہ تشخیص آپ کی صیحح نہیں ہے مجھے ایک بڑا علم عطا ہوا ہے اور ہونا چاہتا ہے - فرمایا تم پچھتاؤگے مولوی صاحب نے اپنے ذہن میں ایک نہ سنی اور زیادتی کی حتیٰ کہ جنون ہوگیا - ایسے ہی ہمارے حضرت والا نے ایک چلہ کش کو ایک مقدار معین کے ساتھ ذکر بتایا ان کو لذت زیادہ محسوس ہوئی اور مقدار کا خیال نہ رکھا - نتیجہ یہ ہوا کہ ایک روز پاگلوں کی طرح بکتے بہکتے آنکھیں سرخ معتکف سے باہر نکل کھڑے ہوئے کہ ہائے مراہائے مرا - حضرت والا نے ان پر ٹھنڈا پانی مبقدار کثیر چھوڑوایا تب سکون ہوا تو ہدایت فرمائی کہ اب چند روز کے لئے ذکر بالکل چھوڑ دو ورنہ یاد رکھو کہ پاگل ہو جاؤگے - حضرت والا کو بحمد اللہ طالب کے تحمل کا اندازہ کرنے کا ملکہ ایسا حاصل ہے کہ اس کی نظیر کم مل سکتی ہے بعضوں کو بہت زیادہ ذکر تعلیم فرماتے ہیں اور بعضوں کو بہت کم حتیٰ کہ صرف پانچسو بار ذکر اسم ذات پر اکتفا فرمائی - مجلس چہل و چہارم ( 44 ) پرانے اور نئے فلسفہ کا فرق : - حضرت والا عصر کے بعد حسب معمول مصلے پر تشریف فرماتے اور اہل شہر کا مجمع تھا چند مہمان بھی تھے - مختلف مضامین پر بات چیت ہوتی رہی اور حاجی صاحب قدس سرہ کا ذکر آیا تو بہت دیر تک آپ کے مناقب و محامد و حکایت و واقعات اور علمی تحقیقات نقل فرمائیں - ان مضامین میں سے ایک یہ تھا کہ فلسفہ پر لوگ بہت دلدادہ ہیں پرانا فلسفہ تو کچھ تھا بھی جہاں تک عقل کی رسائی ہوسکتی ہے وہاں تک لوگ پہنچے - جب عقل کو اپنی حد سے بڑھا دیا تو ٹھو کریں کھائیں - وہاں ایک رہبر کی ضرورت تھی اس کے ساتھ چلتے تو بہت کچھ حاصل ہوتا وہ رہبر وحی ہے مگر وہ اس دھوکہ میں رہے کہ عقل ہی کافی ہے حالانکہ الٰہیات میں عقل کی مثال آنکھ کی سی ہے - آنکھ میں قوت بصارت بیشک ہے اور دییکھنے کا آلہ یہی ہے لیکن اندھیرے میں روشنی کا محتاج ہے - بلا روشنی کے عدم و جود اس کا برابر ہے - اس سے انکار نہیں کہ آنکھ اچھی چیز ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ بعض جگہ اس کے لئے دوسری روشنی بھی موقوف علیہ ہے اور آج کل کا فلسفہ تو عجیب چیز ہے - لوگوں نے اس کا نام