ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
مولویوں کیلئے چندہ : ایک مقام پر ایک شخص ایک رومال میں باندھ کر دو سوروپے لائے اور میرے سامنے رکھ دیئے - میں نے کہا یہ کیا ہے کہا آپ کا نذرانہ سفر خرچ - میں نے کہا آپ اپنے پاس سے دیتے ہیں ہا چندہ سے - کہا تمام بستی کے چندہ سے اور یہ کوئی نئی بات نہیں - ہر عالم کا ہم اپنے اوپر حق سمجھتے ہیں ہر شخص سے بقدر استطاعت وصول کرتے ہیں اور پیش کردیتے ہیں - میں نے کہا نے کہا یہ ہدیہ نہیں ہے غضب ہے جو مال بلا رضا مندی وصول کیا جاوے وہ مال سخت ہے - سب نے مل کر اصرار کیا کہ قبول کر لیجے مگر میں نے کہا ہر گز نہ لوں گا اسمیں بہت سے مفاسد ہیں - ایک موٹی سی بات یہ ہے کہ ہدیہ سے اصل غرض محبت کا بڑھنا ہے بدلیل نھادوا تحابوا ( ترجمہ - آپس میں ہدیہ دیا کرو کہ ایک دوسرے کے دوست بن جاؤگے - اور اس ہدیہ میں ایسے لوگوں کی بھی شرکت ہے کہ انہوں نے مجھے دیکھا تک بھی نہیں نہ کبھی میرا نام سنا تو کیا چیز بڑھے گی جسکی اصل ہی نہیں - کہا یہ ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ کسی نے ناخوشی سے نہیں دیا - یہاں سب کو علماء سے محبت ہے میں نے کہا اچھا اس کا امتحان یہ ہے کہ اس کو جس جس سے لیا ہے اس کو واپس کیجئے اور کہہ دیجئے کہ سب نے جتنا جتنا دیا ہے وہ کم زیادہ کا کچھ خیال نہ کریں اپنا اپنا ہدیہ خود لے کر چلے آیں میں سب سے لے لونگا - اسی طرح ان سے ملاقات بھی ہوجاوے گی پھر ہدیہ موجب محبت ہوجاویگا - اسکا ان کے پاس کچھ جواب نہ تھا وہ رقم لے گئے اور سب کو واپس کی - پھر قسم کھانے کو ایک پیہ تو کوئی لے کر نہیں آیا - میں نے کہا دیکھ لیجئے - یہ چندہ جبر کے ساتھ تجا ورنہ اتنے دینے والوں میں سے کوئی تو اپنا ہدیہ لاتا - معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص نے ہدیہ سمجھ کر نہیں دیا - صرف محصل کے دباؤ اور شرما حضوری سے اور اداء رسم کیلئے دیا تھا - حضرت کا معمول : انہیں باتوں کو دیکھ کر میں نے یہ مقرر کرلیا ہے کہ جب کوئی ہدیہ پیش کرتا ہے تو اس سے پوچھتا ہوں کہ تمہاری ماہواری آمدنی کیا ہے اگر اس نے کہا تیس روپیہ ہے تو ایک روپیہ