ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
ہے جیسے کوئی طبیب طب میں اضافہ کرے کہ بجائے فاد ذہر کے سنکھیادے ہاں مستحبات میں کمی بیشی رائے شیخ پر منحصر کما ہو ظاہر - دعا معین فی العلاج ہے کافی علاج نہیں : ان صاحب کے لئے کثرت شبق کے علاج چار تجویز ہوئے ہمت یعنی بتکلف عفاف حاصل کرنا کسی دوسرے شغل سے خیال بٹانا ہیجان کی طرف سے اور اس کے علاج كي طرف سے بے التفاتي اختيار كر لينا - دعا اور یہ ہدایت کی گئی کہ وظیفوں کے بھروسہ نہ رہیں یعنی بے قاعدہ علاج نہ کریں - ان چاروں معالجوں میں سے دو اول کے یعنی ہمت اور صرف خیال تو علاج مشترک ہے ہر مریض شبق کے لئے ضروری ہے اور چوتھا یعنی دعا معین فی العلاج ہے جیسا دوا پینے کے ساتھ تبدیل آب و ہوا مراض مادی میں کہ علاج کافی نہیں ہان معین دوا ہے - اس طرح کہ مقوی روح ہے دوا سے ازالہ مادہ ہوتا ہے اور آب و ہوا سے قوت طبیعت - تو مرض کے جلدی جاتے رہنے کی امید ہے - کبھی شاذ و نادر ایسا بھی ہوا ہے کہ اگر مرض بہت خفیف ہوا تو صرف تبدیل آب و ہوا کافی ہوگئی یا درجہ امکان میں یہ بھی ہے کہ کسی جگہ کی آب وہوا ایسی ہو کہ علاج مرض کے لئے کافی ہو جاوے اور صنعتی تدابیر سے ہوا کا ایسا بنایا جانا قرین قیاس بھی ہے کہ تنقیہ مادہ صرف استنشاق ہوا سے ہو جاوے بکلہ بعض ماہرین فن سے ایسا واقع بھی ہوا ہے ادویات کے بخور سے ہوا کی کیفیت ایسی کردی کہ تنقیہ مادہ اس سے ہوگیا لیکن یہ سب باتیں بے قاعدہ علاج ہیں اور عادت مستمرہ کے خلاف ہیں - ان کے بھروسہ مرض کی طرف غفلت کرنا کم عقلی ہے - اسی طرح قاعدہ کا علاج ہمت اور صرف خیال ہے ہاں دعا بھی علاج ہے یعنی معین ہے - تدبیر میں خود علاج کافی نہیں - اس مثال مذکورہ سے اس شبہ کی گنجائش نہیں رہی کہ دعا کی بڑی فضیلت آئی ہے - اور قبولیت کا وعدہ ہے اور بعض اولیاء اللہ کی دعا ہی سے لوگوں کے کام بن گئے ہیں - دزد رہزن ایک دعا سے قطب ہوگیا کیونکہ فضیلت کا معین فی العلاج ہونا ظاہر ہے - معین فی العلاج بھی علاج ہی ہے - گو علاج سے بالنسبتہ کمتر ہوا کیا کچھ کم فاضل چیز ہے - اگر ایک