ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
تو ان کا اقتداء کرنا ضروری ہے - ( ف ) اس سے حضرت صاحب کا بغض للدینا و حسن تفہیم جو ایک شعبہ ہے ارشاد کا بخوبی واضح ہے - ( محمد مصطفیٰ عرض کرتا ہے کہ یہ مضمون کمالات امدادیہ میں حضرت والا کے قلم کا لکھا ہوا مل گیا اس واسطے بخبسہ و بلفظ مع فائدہ نقل کردیا گیا تبرکا و تمیمنا ) قصہ مولانا رحمت اللہ صاحب و سلطان المعظم و حضرت حاجی صاحب قدس سرہ اور ایک ذکر یہ تھا کہ مولوی رحمتہ اللہ صاحب مہاجر بانی مدرسہ صولتیہ مکہ معظمہ کو حضرت سلطان المعظم عبد الحمید خان نے بلایا تو اس درجہ اکرام کیا کہ کسی بادشاہ کا بھی اتنا اعزاز نہ ہوتا تھا - جس کی نسبت ایک سلطنت کے سفیر نے لکھا تھا کہ ایک عالم یہاں آئے جن کا اس قدر اعزاز ہوا کہ کبھی کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کا بھی نہیں ہوا اور سلطان نے عہدہ اور ملاد دینا چاہا مگر مولوی صاحب کا دماغ کتب بینی اور کژت مطالعہ سے خشک ہوگیا تھا اس لئے کچھ قبول نہ کیا حتیٰ کہ سلطان نے مدرسہ کی خدمت کرنا چاہی وہ بھی منظور نہیں کی - ہاں سلطان نے مولوی صاحب کو قضا کی سند عطا فرمادی تھی وہ محض تبرک کے طور پر لے لی تھی جس کی رو سے مولوی صاحب جب چاہتے قاضی بن سکتے تھے - مولوی صاحب کو شوق اس کا بھی نہ تھا صرف تبرکا لے لی تھی کیونکہ اس پر سلطان کے دستخط اپنے قلم کے تھے - جب مولوی صاحب سلطان کے یہاں سے لوٹ کر مکہ معظمہ تشریف لائے تو ملاقات کے وقت حضرت صاحب سے ظل اللہ سلطان المعظم کے مدائح و مناقب بیان کر کے درخواست کی کہ اگر آپ اجازت دیں تو ان کے حضور میں آپ کا بھی ذکر کروں - حضرت صاحب نے ارشاد فرمایا کہ کیا نتجہ ہوگا - غایت مافی الباب وہ معتقد ہو جاویں گے پھر آپ دیکھ لیجئے کہ آپ کے جو معتقد ہوئے کیا نتیجہ ملا - یعنی بیت السلطان سے قرب اور بیت اللہ سے بعد - البتہ آپ ان کی تعریف کرتے ہیں کہ بڑے عادل ہیں - اور وارد ہوا ہے کہ سلطان عادل کی دعا قبول ہوتی ہے سو اگر اپ سے ہوسکے آپ ان سے میرے لئے دعا کرا