ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
والا کانپور میں قیام گاہ سے اسٹیشن کو چلے تو دروازہ پر معززین اور عوام الناس کا ہجوم اتنا تھا کہ مصافحہ کرتے آدھا گھنٹہ گزر گیا اور ریل نکل جانے کا احتمال ہوگیا بالآ گاڑی منگوا دی گئی تو یہ نوبت تھی کہ چار پانچ سو قدم تک سڑک پر جگہ نہ تھی - کوچبان چیختے تھک گیا مگر راستہ نہ ملتا مبشکل وہاں سے گاڑی نکلی اور اسٹیشن پہنچے تو دیکھا کہ وہاں اس سے زیادہ مجمع موجود ہے اور معلوم ہوا کہ کانہور کے دوسرے اسٹیشن پر اتنا ہی مجمع گیا ہے اس خیال سے کہ شاید یہاں سے سوار ہوں مبشکل جان چھڑا کر پلیٹ فارم پر پہنچے تو لوگ اس قدر بے قرار کہ ایک دم بلا ٹکٹ پلیٹ فارم پر گھس آئے - پھاٹک کا سپاہی دیکھتا ہے اور چیختا ہے مگر نقار خانہ میں طوطی کی آواز ہے حتیٰ کہ اسٹیشن ماسٹر تک نوبت آئی اور اس نے آکر انتظام کیا مگر کون سنتا ہے - آخر اس نے خوشامد سے کہا کہ اگر کوئی حاکم بالا آجایگا تو میرے اوپر آفت آجاویگی - آپ لوگ ازراہ مہربانی باہر چلے جاویں تب بھی کچھ باہر گئے اور کچھ نہ گئے - جب تک کہ ریل چھوٹ نہیں گئی تب تک یہی چپقلش تھی بلکہ بعض لوگ دو دو تین تین استژین تک بھی ساتھ گئے - گویا یوضع لہ القبول فی الارض ( ترجمہ - مقبولیت اس کے لئے مقررر کردی جاتی - 12 ) کا پورا نظارہ تھا - یہ صرف ایک واقعہ کانپور کا بیان کیا گیا بہت جگہ ایسا ہی دیکھنے میں آیا - حضرت والا پر عمل تسخیر کا شبہ : حضرت والا کے اس جاہ کو دیکھ کر بعض لوگوں کو یقین کے ساتھ یہ خیال ہوگیا اور بارہا ایسے عریضے آئے کہ جو عمل تسخیر کا آپ پڑھتے ہیں ہم کو بھی بتادیجئے - حضرت والا نے لکھ دیا کہ نہ میں نے کوئی علم پڑھانہ مجھے کوئی ایسا عمل آتا ہے - نہ میں اس کو جائز سمجھتا ہوں مگر لوگوں کو یقین نہیں آیا - جب کانپور سے حضرت والا نے عزلت فرمائی تو اہل کانپور کی یہ حالت تھی کہ ماہی بے آپ کی طرح تڑپتے تھے - ایک صاحب نے نہایت الحاح سے عرض کیا کہ ٹھنڈے سڑک کی دو دکانیں میں نذر کرتا ہوں اور سو روپیہ ماہوار ہمیشہ حاضر کروں گا اور مدرسہ کی خدمت سے جناب کو سبکدوش کیا جاتا ہے مگر حضور برائے خدا کانہور ہی میں رہیں - فرمایا اس میں اختیار حضرت حاجی صاحب کو ہے ان لوگوں نے حضرت کو لکھا تھا