ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
نفسہ صیحح ہوتے ہیں مگر کسی عارض وجہ سے موقوف رکھے جاتے ہیں - مثلا کسی کو جوع البقر کا مرض ہے تو اس کو دوایا غذا مزہ دار نہ دینا چاہئے کیونکہ وہ ضرر مقدار سے زیادہ کھالے گا اور نقصان ہوگا - ایسے ہی بہت سے مسائل صیحح ہوتے ہیں لیکن مستلزم بعض مفاسد کو ہوتے ہیں - اس وقت ان پر فتویٰ نہ دینا کتمان حق نہیں ہے بکلہ تقدم بالحفظ از مرض ہے اور حفاظت حق یہی حکم علم دین پڑھانے کا ہے یہ کوئی ضرور نہیں کہ ہر شخص کو علم پرھادیا جاوے - بعض طالب علم صرف اس واسطے پڑھتے ہیں کہ وہ بھی مولوی کہلانے لگیں اور فتویٰ ان کا مانا جانے لگے - پھر ان سے علماء اور علم کو سخت نقصان پہنچتا ہے - مطلق علم اور افراد علم سب کا یہی حال ہے - بعضوں کو کسی خاص فرد علم سے مناسبت نہیں ہوتی اور طبیعت فتنہ پسند ہوتی ہے - وہ علم پڑھانے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں - مدرسوں میں اس کا خیال ہونا چاہئے - علم بقدر ضرورت اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ وہ ہر شخص پر فرض ہے مطلب یہ ہے کہ اصطلاحی مولوی امقتدا بننا ہر ایک کے شایان نہیں - علماء کو اپنے اوپر شدید اور دوسروں پر نرم ہونا چاہئے : علماء کے لئے بکلہ ہر شخص کے لئے عمدہ اور مفید طریق یہی ہے کہ اپنے لئے تنگی اور دوسروں کے لئے توسع سے کام لیں اور اس کے عکس سے ان الشیطان لکم عدو فاتخذوہ عدوا ( شیطان تمہارا دشمن ہے تم بھی اس کو دشمن ہی سمجھو ) اور اجتنبوا کثیرا من الظن ( بہت سے گمانوں سے بچو ) کی تعمیل کبھی نہیں ہوسکتی - ( 5 ) دین کے فتنہ سے تو بچنا ضرور ہے ہی دنیا کے فتنہ سے بھی حتی الامکان بچنا ہی چاہئے - ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الا خرۃ حسنۃ ( اے رب ہمارے دے ہم کو دنیا میں بھلائی اور آخرت میں بھلائی ) اس پر دال ہے نیز احادیث میں کثرت کے ساتھ فتنوں سے پناہ مانگنے کی تعلیم ہے - دنیا کا فتنہ خود قابل احتراز ہے نیز دنیا کا فتنہ موجب پریشانی و رافع سکون قلب ہو کر وہی مضرتوں کا باعث بھی بن جاتا ہے - ہاں جب اس سے اشد ضرورت دین کی یا دنیا کی آپڑے تو فلیخرلیسرھما ( چاہئے کہ جو دوسرے سے اسان