ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
لئے رائے پیش کی - جناب مولانا ظفر احمد صاحب نے بھی جواب بھیجنے کی تائید فرمائی - لیکن جناب مولوی شبیر علی صاحب نے فرمایا کہ جب مضمون بھیجنا حضرت والا کے خلاف مزاج ہوا اور جواب بھیجنے کی اجازت نہیں دی تو پھر اصرار کرنا یا مکرر عرض کرنا مناسب نہیں ہے - حضرت پر کیفیت جلال کا طاری ہونا اور خدام کو سمجھانا دوسرے دن صبح کے وقت جب یہ خادم کسی ضرورت سے خدمت اقدس میں حاضر تھا تو کسی سلسلہ میں رات کے واقعہ کا ذکر آگیا - اس ذکر سے حضرت والا پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوگئی ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ کچھ نہیں سمجھتے - جو کچھ میں کہتا ہوں سمجھ کے کہتا ہوں - غور کرنے کے بعد کہتا ہوں - متعدد بار تجربہ ہوچکا ہے - وہی ہوا جو میں نے کہا تھا - پھر بھی نہیں سمجھتے - میں نے اپنے بزرگوں کی آنکھیں دیکھی ہیں ان کی صحبت اٹھائی ہے جو کچھ وہ فرماتے تھے خداوند کریم کے فضل سے پورا کر رہتا تھا - ان کی نظر خدا کی مرضی پ تھی اور یہی وجہ تھی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے ہر کام میں برکت اور کامیابی عطا فرماتے تھے وہ جو کرتے یا کہتے تھے - خدا کی رضا سے کہتے تھے - اسی وہ وہ ہمیشہ غالب رہتے تھے - اب لیجئے میں تیزی ہوگئی تھی - بیان میں کوئی دوسری قوت کار فرماتھی آواز بلند تھی چہرہ مبارک اور سر اقدس پسینہ سے تر تھا یہاں کہ عمالہ عالی اتار کر رکھ دیا گیا تھا - اسی مضمون کی تحت میں عجیب جوش عجیب کیفیفت اور عجیب جذبہ کی حالت میں ایک ایسی تقریر فرمارہے تھے جو کسی طرح تحریر میں نہیں آسکتی - جناب مولانا ظفر احمد صاحب بے تاب ہو کر اپنی جگہ سے اٹھ کر آگئے تھے - عجب سماں تھا عجب منظر تھا عجیب کیفیت تھی تمام فضا جوش سے بھری ہوئی تھی معلوم ہوتا تھا درو دیوار کیا کل کائنات لرزاں ہے - یہاں تک کہ بے ساختہ زبان مبارک سے یہ کلمات نکلے کہ جس طرح حضرت مولانا گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ کو لوگوں نے نہیں پہچانا - خدا معاف کرے خدا معاف کرے مجھ کو بھی نہیں پہچانا - میں کس طرح ان بزرگوں کو سامنے لا کر دکھا دوں - میری آنکھوں نے جو کچھ دیکھا ہے ان کی آنکھوں کے سامنے کس طرح کردوں - یہ میرے سامنے کے بچے ہیں - انہوں نے ان بزرگوں کو نہیں دیکھا جن کو میں نے دیکھا