ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
کسی کو بیٹا بنانا - بیٹا ہی سوچ سمجھ کر بنایا جاسکتا ہے - اس سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ مریدیں سے حضرت والا کو بیٹے کی سی خصوصیت ہے - بیٹے کے لئے باپ وہی بات پسند کرتا ہے جو اپنے لئے کرتا ہو - اسی واسطے ان پر بھی تشدد ہی مناسب ہے جسیے کہ اپپنے اوپر سوال : حضرت والا نے حضرت حاجی صاحب کا طریقہ کیوں نہ اختیار فرمایا ؟ جواب یہی سوال کسی نے خود حضرت والا سے ایک بار راقم کے سامنے کیا تھا تو فرمایا کہ حضرت حاجی صاحب قدس سرہ پر حسن ظن اور تواضع اور حسن خلق غالب تھا - ادنیٰ سے ادنیٰ کو بھی اپنے سے اچھا سمجھتے تھے اور بد گمانی کا تو ذکر ہی گیا اور وہ زمانہ بھی اور تھا اور حضرت حاجی صاحب کو عام کے حالات اور واقعات کا علم اتنا نہ تھا جتنا کہ ہم کو ہے اور یہ کچھ تعجب کی بات نہیں - عام لوگوں سے کام چھوٹوں کو زیادہ پڑتا ہے - دیکھا ہوگا کہ بڑی حکام تو انگریز ہوتے ہیں - بڑے معاملات ان کے سامنے جاتے ہیں اور چھوٹے کاموں اور کثیر الوقوع مقدمات کے لئے آنریری مجسٹریٹ دیسی مقرر کئے جاتے ہیں کیونکہ ان کو اپنے جم جنسوں کے حالات کا زیادہ علم ہوسکتا ہے - ہمارے تجربہ سے ثابت ہوگیا ہے کہ حسن اور قبیح کو الگ کرلینا عوام سے نہیں ہوسکتا تو پھر دونوں ک حکم الگ کسیے ہوں - خود تو وہ دونوں کو الگ کیا کریں - علماء کو بھی ( جو ان دونوں میں امتیاز کرسکتے ہیں ) کرتے دیکھ کر یہی سمجھتے ہیں کہ اس فعل میں کچھ قبیح نہیں ہے ( اسی واسطے علماء کو بھی منع کیاجا تا ہے ) مسئلہ فی نفسہ یہ صیح ہے کہ مباح مباح ہے اور ممنوع ممنوع لیکن جب ہی جبکہ دونوں میں تمیز ہوسکے - حضرت حاجی صاحب کا فعل بھی اس پر مبنی تھا - اس دعویٰ پر ہم کو کسی دلیل کی ضرورت نہیں کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ممنوع کو الگ نہ کرنے کی صورت میں بھی حضرت اس کو مباح ہی فرماتے تھے - آپ اپنے وجدان سے تلاشش کیجئے بس نئی بات رہی - تو یہ کہ عوام کی حالت آج کل یہ ہے یا نہیں کہ وہ حسن اور قبیح میں تمیز نہیں کرسکتے - ہمارا دعویٰ ہے کہ یہ حالت ہے اور ہم کو تجربہ سے اس پر پورا و ثوق ہے کہ یہ دعویٰ صیحح ہے تو اگر حضرت قدس سرہ بھی ہوتے اور ہم واقعات سے عوام کے حالات حضرت پر عرض کرتے تو یہی حکم دیتے جو ہم کہتے ہیں تو اس میں حضرت کی مخالفت بھی نہیں رہی -