ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
حالانکہ مقبولیت کے لئے جو علامات مظنونہ ہیں ان علامات کا حال خواب کا سا ہے کہ ایک ہی خواب کی ایک کے لئے تعبیر کطھ ہوتی ہے اور دوسرے کے لئے کچھ اور مع اس کے علم تعبیر علم واقعی ہے جس کو خدا تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے - وہ بالکل صیحح سمجھتا ہے علی ہذا علامات سے کچھ اخذ کرنا بھی شیخ کا کام ہے طالبین کو اپنی فہم پر اعتماد نہ چاہئے - اور اگر شیخ کے اشارے سے ثابت ہوجاوے کہ یہ علامت نیک ہے تب بھی اس کی طرف ایسا التفات نہ چاہئے کہ باعث انکار ہوجاوے - بدلیل 1 قول عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اذن یکسکلو ایسے موقعہ پر اسلم اور بے خوف و خطر طریقہ یہی ہے کہ اس کو عطیہ الٰہی سمجھے اور عبودیت کو نہ بھولے - اگر وہ عطیہ الٰہی اس کے لئے ہے تو اس کو مل رہے گا اور کسی کے زائل کرنے سے زائل نہ ہوگا خود اس کے ٹالنے سے بھی ٹل سکتا - خلاصہ یہ کہ عمل کرے اور اس کے مقبولیت اور عدم مقبولیت کی طرف نظر نہ کرے - اپنے امکان بھر اس کے ارکان و شرائط کو پوری کرے کیونکہ اس کے مامور ہے اور قبول فعل حق تعالیٰ ہے - امید کو کسی قدر غالب رکھے - سبقت رحمتی علی غضبی ( میری رحمت قہر پر غالب ہے ) - اس کے ماسوا آثارو علامات کی طرف توجہ ہی نہ کرے - ثمرات کی نسبت اس پر عمل کرے کہ نیکی کر اور دریا میں ڈال - تو بندگی چوکدایاں بشرط مزدمکن کہ خواجہ خود روش بندہ پروری داند حضرت والا کے اخیر جملہ میں کہ انوار واقع میں ہوں یا میرا خیال ہو کس قدر اس کی تعلیم ہے - حالانکہ اہل اللہ کو حق تعالیی نے وہ نظر دی ہے کہ مبصداق فانہ ینظر بنور اللہ غلطی نہیں کر سکتی لیکن تعلیم طالبین اور احتیاط کے لئے ہی فرمایا کہ ان باتوں پر وثوق نہ چاہئے - حضرت مولانا مدظلہ کے اس وقعہ میں طالبین کے لئے ایسے سبق ہیں کہ بار بار دہرانا بلکہ ہر وقت یا د رکھنا چاہئے - نہ عبودیت سے خروج ہے نہ نعمت الٰہی کی بے قدری نہ ایک فضیلت پر فخر بالکل یاد رکھنا چایئے - نہ عبودیت سے خروج ہے نہ نعمت الٰہی کی بے قدری نہ ایک فضیلت پر فخر بالکل اعتدال ہے اور آیت و کذلک جعلنا کم امۃ و سطا ( ہم نے تم کو امت معتدول بنایا ہے ) کی تصدیق ہے بلا افراط ولا تفریط __________________________________________________________________________________ 1 قصہ اس کا یہ ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو یریرہ سے فرمایا کہ علی الا علان کبد وجو کوئی کلمہ پڑھے جنت میں جاویگا - ابو یریرہ چلے راستہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ ملے اور ابو ہریرہ کو زبردستی روکا اور کہا اذن چنگلوا یعنی اس اعلان کا نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ اعمال چھوڑیں گے - اس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بحال رکھا