ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
بھولے - جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ہر فعل مقبول اور غایت درجہ کی طاعت تھا پھر فرماتے ہیں - اما انا افاکل کما یاکل العبد یعنی میں کھانا اس طرح کھاتا ہوں جیسے ایک غلام کھایا کرتا ہے ( نہ کہ متکبروں اور آزاد لوگوں کی طرف ) شرطوں میں اسی بات کی اور اس حد شرعی کی رعایت ہے - یایھا الذین امنو الم تقولون مالا تفعلون ( اے مسلمانوں ایسی بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں - یعنی بات وہ کہنا چاہیئے جو آسمی کر بھی سکے ) حکایت : ایک شخص نے کبر سنی میں قرآن شریف حفظ کیا چند بزرگوں کی دعا سے تکمیل کو پہنچ گیا - بزرگوں کی دعا کا شامل ہونا علامت مقبولیت ہے - بعد ختم اس نے دو بزرگوں کو خواب میں دیکھا کہ ہو حفظ قرآن پر مبارک کباد دیتے ہیں اس سے اوو مقبولیت کی تائید ہوئی - ایک نئے شہر میں اس کا درود ہوا اہل محلہ نے اپنی مسجد میں تراویح میں ختم قرآن کے لئے کہا اس نے اس کو آوازہ غیب سمجھا اور ذرا انکار نہیں کیا اور ایک بزرگ سے بیان کیا کہ امسال میں فلاں محلہ میں سناوں گا - ان بزرگ صاحب کے منہ سے نکلا آپ کا قرآن مقبول ہے جہاؤگے لوگ ہاتھوں ہاتھ لیں گے - یہ سب سے زیادہ خوش کن اور اطمینان وہ بات تھی - انہوں نے تراویح شروع کی - پہلے ہی روز اہل محلہ سے بگاڑ ہوا حتیٰ کہ مارنے مرنے کو تیار ہوگئے - ان کو اپنے استاد کی نصیحت یاد آئی کہ واردات اور کشف وکرامت کی طرف التفات نہیں کرنا چاہئے - یہ اس التفات کی سزا ہے اس مسجد سے نکال دئے گئے اور مدتوں اہل محلہ نے ذلیل کیا - اس میں بہت سے پڑھے لکھے بھی غلطی کرجاتے ہیں - ذرا سی اچھی علامت پاکر اپنے آپ کو خواص میں سمجھ لیتے ہیں - رفتہ رفتہ یہاں تک نوبت آجاتی ہے کہ دوسرے میں اگر وہ علامت نہ پائیں تو اس کو اپنے سے کم سمجھتے ہیں یہ دو مرض آجاتے ہیں خود بینی اور دوسرے کی تحقیر شیخ سعدی انہی کی نسبت فرماتے ہیں - مرا پیر دانائے روشن شہاب دو اندرز فرمود بر روئے آب یکے آنکہ بر خویش خود بیں مباش دوم آنکہ بر غیر بدبیں مباش