ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
ملامت لتاڑ ہی ہوتی رہی ہے اور نقشبندیوں کی شان محبوبین کی ہے - ھنیا لارباب النعیم نعیمھم وللعاشق المسکین ما یتجرع مگر نبظر انصاف اگر دیکھا جاوے تو معلوم ہوجائے گا کہ اقرب الی السنتہ کون ہے - البتہ اگر تصور شیخ بغیر قصد ہوجاوے تو کلام نہیں مبحوث فیہ افعال اختیاریہ ہیں - امور اضطرار یہ میں گفتگو نہیں - اگر کہا جاوے کہ قصد کدا کی طرف توجہ کار کے اور تصوف شیخ کا اعانت کے واسطے کرے تو میں کہتا ہوں کہ جب وصول بغیر اس معین کے ممکن ہے تو ان حجابات و وسائط کی کیا حاجت میں تو سب کو اسم ذات بتاتا ہوں آج تک کسی کو تصور شیخ یا شغل لطائف و دیگر اقسام کے اذکار واشگال باسثناء بعض کی بعض الاحوال نہیں بتائے اور الحمد للہ اسی سے سب کو مقصود حاصل ہوا گو کبھی تغیر احوال سے کمی زیادتی یا ترک کرنا پڑا لیکن اور حجابات سے کام نیں لیا - ( ع ) اول ما آخر ہر منتہی است ٭ حضرت حاجی صاحب کے یہاں کا بہت ہی مختصر سلوک ہے آپ اس فن کے مجتہد تھے اور فقہاء کا اجتہاد تو ختم ہوگیا مگر صوفیہ کا اور اطباء کا اجتہاد باقی ہے ہر زمانہ میں اس فن کا ایک مجتہد ہوتا ہے ہمارے حضرت اپنے زمانہ کے مجتہد تھے - اسی طرح حضرت مجدد صاحب اپنے زمانہ میں اس زمانہ کے لوگوں کی خصوصیات بعض طرق کو مقتضی ہونگی اسی واسطے حضرت مجدد صاحب ان کا اثبات فرمایا اور اس وقت وہ مقتضیات بدل گئے - احکام و طرق بھی بدل گئے اس لئے نہ ان حضرات پر انکار نہ حضرت حاجی صاحب پر جیسے طریق معالجہ میں متقدمین و متاخرین کا مسلک مخلتف ہے شیخ کو بھی مثل طبیب کے مجہتد ہونا چاہیئے اس میں تقلید سے کام لینا نا واقفی پر دلالت کرتا ہے - طبیب جیسا مریض کے لئے مناسب سمجھے ویسا علاج کرے خواہ مریض روحانی یو جا جسمانی - حضرت حاجی صاحب کے سلوک کا مدار جمعیت قلب واطمینان خاطر پر تھا - تشتت و تفرق سے بہت اجتناب فرماتے تھے ع ماضی و مستقلبلت پردہ خداست ٭ اس لئے شغل لطائف کے تشبت بھی بچاتے تھے کہ شیخ کامل سلوک کو بغیر حجابات کے قطع کراتا ہے - باقی جلدی اور دیر کا مدار مناسبت و خصوصیت استعداد پر ہے اسی لئے جس مرید کو شیخ سے مناسبت نہ ہو اس کی طرف رجوع نہ کرے کسی اور مناسب شخص کو تلاش کرے