ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
محبت هوتي هے ايسے هي بلكه بدرجه اكمل واعليٰ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسل کے جائز تصور سے ہوتی ہے - رہا حاضر و ناظر جاننا اور بقطع کلی از غیر متوجہ ہونا یہ صرف ذات حق تعالیٰ عزاسمہ کا حق ہے اور درود شریف کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر فورا پیش کیا جانا لفظ حاضر و ناظر کے ہو جانے کو مستلزم نہیں بکلہ یہ ایسا ہے جیسے آج کل بذریعہ تار خبر پہنچتی ہے کہ ادھر ایک شخص تار پر ہاتھ رکھتا ہے ادھر فورا دوسرے تار گھر میں خواہ کتنی دور ہو آواز ہوتی ہے بلکہ بعض جگہ یہ بھی ایجاد ہوگئی ہے کہ تار دینے والے کی تصویر بھی خبر کے ساتھ جاتی ہے بکلہ یہ بھی ہوا ہے کہ کاتب مکتوب الیہ آپس میں ایک دوسرے کو دیکھ سکتے ہیں لیکن یہ حاضر ناظر ہونا نہیں ہے کیونکہ یہ الفاظ جب خدا تعالیٰ کے واسطے بولے جاتے ہیں تو معنی یہ ہوتے ہیں کہ حق تعالیٰ بلا توسط اسباب اور بلا احتیاج الیٰ غیر سے حاضر ناظر ہیں - کوئی چیز کسی حال میں ان سے چھپ نہیں سکتی اور کاتب اور مکتوب الیہ کا باہم نظر آنا بذریعہ برق کے ہے اور صاحب برق کے فعل سے ہے اس کے بلا اجازت و رضامندی نہیں ہوسکتا اور اتنی ہی دیر تک ہوسکتا ہے کہ وہ برق کو حرکت دے - اسی طرح حق تعالیٰ کے ملائکہ معین فرما رکھے ہیں جو درود شریف کو فورا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچاتے ہیں گو یا درود شریف پڑھتے وقت ایک تار پڑھنے والے اور حضور کے درمیان لگ جاتا ہے اس وقت اگر حضور کو حاضر و ناظر کہا جاو تو اس مکتوب الیہ بلکہ کاتب کو بھی حاضر و ناظر کہنا چاہئے جن کے درمیان بذریعہ تار مع رویتہ باتیں ہو رہی ہوں دھو کما تری بلکہ اسمیں ایہام ہے - حق تعالیٰ کی صفت کا کسی دوسرے کے واسطے ثابت کرنے کا تو اس شخص کا اپنی حد سے بڑھانا اور شان خداوندی کا گھٹانا ہوا - اہل علم کے لئے تو یہ صرف صورۃ ہے اور عوام اگر اس لفظ کا اطلاق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کرنے لگیں گے تو اس معنی تک بھی ان کی رسائی نہ ہوگی کہ صرف بااعتبار معنی لغوی کے حاضر و ناظر آپ کے لئے کہا گیا ہے وہ اس وے وہی معنی لیں گے جو ذات خداوندی پر اطلاق کے وقت لیتے ہیں اور یہ شرک ہے تو عوام کے مغالطہ میں پڑنے کی وجہ سے یہ اطلاق اہل علم کے لئے بھی مناسب نہیں - یہ ایسا ہے جیسے کسی نے مشہور کیا کہ