ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
ہے اس واسطے تصور شیخ کی تحقیق اور مالہ وماعلیہ سے تعرض کرنا بے ضرورت ہے - صرف اس کے متعلق ایک علمی اور ایک عملی غلطی کا بیان کیا جاتا ہے - علمی غلطی تو یہ ہے کہ بعض جاہل صوفی اسکی حقیقت یہ بیان کرتے ہیں کہ ہر وقت پیر صاحب کی شکل دیکھا کرے اور جو دور ہو تو اس کی شکل کا تصور ہی کیا کرے اور یہ سمجھے کہ یہ خدا کی صورت ہے - ایسے ایک فقیر تھانہ بھون ہی میں مدت تک رہے جن کی صرف یہ تعلیم تھی کہ ہماری صورت کا تصور کرو - نماز روزہ کی بھی ضرورت نہیں ( مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہئے ) تصور شیخ کے یہ معنی تو بالکل بے اصل اور گمراہی ہے - معنی صرف یہ ہیں کہ شیخ کی صورت اور کمالات کا زیادہ خیال کرے اس سے محبت کی زیادتی اور نسبت کو قوت ہو جاتی ہے اور عملی غلطی یہ ہے کہ تصور شیخ کو ضروری سمجھتے ہیں حالانکہ یہ غلطی ہے - حضرت والا تعلیم الدین میں فرماتے ہیں صفحہ 113 راقم کا تجربہ ہے کہ یہ شغل خواص کو تو مفید ہوتا ہے اور عوام کو سخت مضر کہ صورت پرستی ( بت پرستی ) کی نوبت آ جاتی ہے اور خواص بھی اگر کریں تو احتیاط کی حد تک محدود رکھیں اس کو حاضر و ناظر اور ہر وقت اپنا معین و دستگیر نہ سمجھ لیں کیونکہ کثرت تصور سے کبھی صورت مثالیہ رو برو ہو جاتی ہے کبھی تو وہ محض خیال ہوتا ہے اور کبھی کوئی لطیفہ غیبی اس شکل میں متمثل ہو جاتا ہے اور شیخ کو خبر بھی نہیں ہوتی اور تصور کرنے والا سمجھتا ہے کہ شیخ موجود ہیں میرے حال کو دیکھ رہے ہیں جیسے حضرت یوسف علیہ اسلام نے بر وقت اصرار ذلیخا کے حضرت یعقوب علیہ السلام کی صورت دیکھی لو لا ان رای برھان ربہ کی یہی تفسیر ہے - اگر وہ واقع میں حضرت یعقوب علیہ السلام ہوتے تو پھر بیٹوں سے تلاش کرانے کی کیا ضرورت تھی - یہاں سے یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ جیسے تصور شیخ میں دو غلطیاں یعنی علمی و عملی ہیں ایسے تصور شیخ الشیوخ جناب رسول اللہ صلی الہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی ہیں - حضور کی صورت مبارک کو صرف خدا سمجھنا یا حضور گو حاضر و ناضر سمجھنا غلطی ہے - حضور کے جائز تصور کے یہی معنی ہیں کہ حضور کے کمالات و حالات کو بکثرت پڑھنا یاد کرنا درود شریف کا ورد زیادہ رکھنا حیلہ شریف کو کتاب میں بار بار پڑھنا - جیسا کہ تصور شیخ سے یکسوئی از خالات و رفع و ساوس اور قوت اور قوت نسبت اور زیادتی