ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
قال تعالیٰ لا نرید منکم جزاء ولا شکور یعنی بند گان خدا کی شان یہ ہے کہ جب کسی کیساتھ سلوک کرتے ہیں تو ان سے شکر یہ اور بدلے کی خواہش نہیں رکھتے - وقال تعالیٰ لا تبطلوا صدقاتکم بالمن والا ذیٰ ترجمہ : نہ باطل کرو اپنے کار خیر کو احسان جتانے اور تکلیف پہنچانے سے وغیرہا من الآیات والا حادیث عمل میں دینی مفاسد سے بچنے کے ساتھ دنیاوی صورت بھی اچھی اختیار کی جاوے تو مضائقہ نہیں : اس شبہ کا حل یہ ہے کہ حضرت والا نے اقارب کو اپنے پاس رکھ کر سلوک کرنے میں صرف یہی خرابی نہیں فرمائی کہ اس طرح سلوک کرنے سے وہ شکر گزار نہیں ہوتے بکلہ تین خرابیاں ارشاد فرمائیں - کثرت شغل اور صورت دنیا جس پر اعتراض کا موقعہ پیدا ہو اور تیسری یہ ان میں سے اول کی دور دینی خرابیاں ہیں اور یہ تیسری دنیاوی - اول یعنی کثرت شغل کی حقیقت یہ ہے کہ جو عزیز واقارب پاس رہیں گے ان کی خدمت اپنے دیگر دینی کاموں سے کسی قدر مانع ضرور ہوگی گو یہ خدمت بھی بوجہ صلہ رحم ہونے کے دین ہی میں داخل ہے لیکن اپنے دیگر اعمال پر ترجیح نہیں ہوسکتی تاوقتیکہ کوئی دوسرا اس کام کو پورا کرنے والا موجود ہو تو اس کو پسند نہ فرمانے کے یہ معنی ہوئے کہ دینی امور میں سے بھی اس کو اختیار کرنا چاہئے جو اعلیٰ اور ارفع ہو اور صورت مذکورہ یعنی اقارب کے پاس رکھنے میں وہ درجہ حاصل نہیں ہوتا اور دوسری خرابی بالکل بدیہی ہے حسن سیرت کے ساتھ حسن صورت بھی مطلوب اور مرغوب فیہ ہے اور بلا کسی خاص ضرورت کے صوری مفسدہ میں پڑتا بھی کیا ضرور ہے - ان دونوں مفاسد سے بچنے کا حاصل یہ ہوا کہ ترقی دینی اعلیٰ درجہ کی حاصل کرنا چاہئے اور صورت بھی دین ہی کی اختیار کرنا چاہئے - دین کو بلا ضرورت صورت بھی دنیا کی کیوں پہنائی جاوے - اس کے بعد اگر عمل میں دنیا کی بھی خرابی پیدا نہ ہو تو ہم خرما وہم ثواب ہے - اس کی مثال یہ ہے کہ مسکین کو کوئی کھانا کھلائے کہ خلوص و للہیت اس کا مغز اور رکن اصلی ہے - اگر نیت میں اخلاص ہو مگر صورۃ جمعرات کے دن کھلاوے تو اتنی خرابی پیدا ہوگئی کہ کوئی دیکھنے والا اس کو داخل رسم سمجھ سکتا ہے تو اگر اس سے بھی بچ جائے تو کیا حرج ہے