ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
صانع ذقالجلال عزا سمہ نے انسان کو ابتلا کے لئے پیدا کیا ہے اس لئے شر کی طرف کچھ دواعی اور خیر سے کچھ موانع پیدا کئے ہیں جن کی وجہ سے درجہ ادنیٰ کی تکمیل بھی مشکل ہوگئی ہے جس درجہ کی آدمی تکمیل چاہئے اس سے فوق بکلہ فوق الفوق کا ارادہ کرے تب اس ادنیٰ میں کامیاب ہوسکتا ہے اس کی مثال اب ایسی ہوگئی ہے جیسے کے گھر میں کھانے پینے کی چیزوں میں سنکھیا کے ٹکڑے ملا کر رکھ دیئے گئے ہوں ٓ طبیب اس پر زہر کھانے کا حکم تو اسی وقت لگاوے گا وہ سنکھیا کی ڈلی کھالے لیکن وہ سنکھیا سے بچنے میں کامیاب جبھی ہوگا جبکہ اس مختلط جنس کو الگ ہی کردے گا اس سنکھیا کی ڈلیوں کے ساتھ کھانے پینے کی چیزوں کو بھی پھینک دے ورنہ اس نے خود غلطی نہ کی سہی گھر میں سے اور کوئی غلطی کرے گا اور کبھی نہ کبھی کطا پاوے گا اسی معنی کر فرمایا گیا ان لکل سلطان حمی و من یرتع حول الحمی یوشک ان یقع فیہ الا ان حمی اللہ محارمہ او کما قال ترجمہ : ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے جو کوئی اپنے مویشی کو اس چراگاہ کے پاس چرائے گا عجب نہیں کہ مویشی اس میں بھی پہنچ جاوے ( اور وہ شخص ملزم ہو جاوے ) یاد رکھو کہ حق تعالیٰ کی مخصوص چراگاہ وہ اعمال ہیں جن کو اس منع فرمایا ہے الغرض دنیا کی محبت بالکل قلب سے نکال دینے کا انسان مکلف نہیں بلکہ اس کی تحدید کا مکلف ہے اور اس تحدید میں وسعت خاطر خواہ ہے مگر نفس اور شیطان سے بچنے کے لئے وسعت کم دنیا ہی بہتر ہے تاکہ مغالطہ میں پڑ کر اس تحدید سے خارج نہ ہو جاوے اور جس سے ہوسکے وہ ہمت کیوں ہارے - بڑے درجہ پر کیوں ہاتھ نہ مارے - وسارعوا الیٰ مغفرۃ من ربکم الآیۃ وفی ذلک فلیتنافس المنتافسون ترجمہ : - اور ایک دوسرے سے جلدی کرو مغفرت الہیٰ کی طرف اور اس میں چاہئے کہ نفسا نفسی کریں کرنے والے - احسان کی صورت ایسی اختیار کرنا جس سے محسن الیہ خوش ہو : - قولہ پانچ روپیہ بھی دیئے جاویں تو وہ شکر گزار ہوں - اس سے ظاہرا یہ شبہ ہوتا ہے کہ کسی کے ساتھ سلوک کرنے سے یہ غرض ہے کہ وہ شکر گزار ہو اور یہ تعلیم شرعی کے خلاف ہے