ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
کیوں - عرض کیا کہ جب ہم حضور پر نور سرو کائینات صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتے ہیں تو گویا جنہم جنت عذاب وثواب قیامت محشر پل صراط رایہ العین ہوتے ہیں - اور جب اس در بار پر انوار گھر بار سے علحیدہ ہوں وہی زن و فر زند و گاؤ کا مشغلہ موجود - حضرت صدیق نے فرمایا یہ ھال تو میرا بھی ہےپھر حضور میں حاضر ہو کر عرض کیا آپ نے فرمایا یا حنظلہ ساعۃ و ساعۃ اور فرمایا کہ اگر ہمیشہ ویسا ہی ھال رہے تو کم ہنسو زیادہ روؤ اور صحراء میں نکل جاؤ تلذذ بالنساء ترک کردو - پھر اس کے بعد کیفیات کے لذیز ہونے میں گاہ گاہ ہونے کی شرط پر ایک حکایت مثال کے طور پر بیان فرمائی کہ ایک شخص امیر تھا قریب قریب کل سامان عیش واسباب اکرام اس کے پاس مہیا تھے مگر بیمار ولاغر اور ایک گریب تھا بیچارے کو کھانا بھی مشکل سے ملتا تھا لیکن تندرست و چست وچالاک موٹا تازہ - امیر صاحب نے دریافت کاکیا تو انتا موٹا تازہ کیوں ہے جواب دیا کہ میں تم سے زیادہ لذیز کھانے کھاتا ہوں اور ہر ماہ ایک نئی شادی کا لطف اٹھاتا ہوں - کہا نکاح کے لطف کی تو مین آزمائش نہیں کرسکتا - ہاں ایک وقت کھانا کم کو بھی کھلاؤ - کہا بہت اچھا آج ہی شام کو اور دوپہر کو طعام نوش جان نہ فرمایئے یا کم کھایئے تاکہ وہ لذیز کھانا زیادہ کھایا جائے - غرج آپ اس کے مکان پر گئے اس نے کہا آرام کیجئے کھاناتیار ہوا چاہتا ہے کچھ کسر ہے بیچارے دن بھر کے بھوکے تھے تھوڑی دیر بعد تقاضا کیا وہی جواب پایا جب سوال کتے کہتا تھوڑی سی دیر ہے گھبرا کر کہا خدا کے واسطے جو موجود ہو لے آؤ - کہا موجود تو باسی روٹی اور ساگ ہے کہا لاؤ لاؤ - وہ انکار کرتا رہا اور یہ اصرار کرتے رہے - غرض وہ لایا تو سب کھاگئے - اس غریب نے کہا یہ ہے وہ لذیز کھانا یعنی بھوک میں کھانا - چونکہ تم ہر وقت سیر رہتے ہو لذت سے محروم ہو - میں حالت گرسنگی میں کھاتا ہوں لذات لا تحصیٰ سے محفوظ و متلذز ہوتا ہوں اور سب کھایا ہوا جان کو لگتا ہے - اور نکاح کا قصہ یہ ہے ہمیشہ باہر ارام کرتا ہوں ہر ماہ جب عورت غسل کرتی ہے اس روز ایک مرتبہ جاتا ہوں عروس نو کا لطف اٹھاتا ہوں - فرمایا مولانا فضل الرحمن صاحب سے کسی نے کہا کہ ذکر میں پہلا سا لطف نہیں آتا - فرمایا پرانی جو رواما ہو جاتی ہے - مراد یہ ہے کہ دوام کیفیت سے انس تو پیدا ہو جاتا ہے مگر شوق نہیں رہتا - انس دوسری چیز ہے