ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
خدام روضہ اقدس یہ سن کر لکڑی لئے ہوئے اس کے پیچھے دوڑے وہ بھاگا - اسی حالت میں اس کی نظر آسمان کی طرف اٹھ گئی - دیکھا کہ اس کے گاؤں کی طرف ایک ابر کا ٹکڑا جم رہا ہے جس کی ہیئت سے پہچانا کہ برس رہا ہے - بہت خوش ہوا اسی وقت کسی ملنے والے سے کچھ قرض لے کر ایک مشیزہ گھی کا خریدا اور لے کر روضہ مبارک پر حاضر ہوا - وہ سمجھتا تھا کہ حضور جالی کے اندر تشریف رکھتے ہیں باہر تشریف نہیں لاتے تمام ضروریات وہیں پوری فرماتے ہیں اس نے یہ دیکھ کر کہ کوئی دیکھ نہیں رہا ہے مشیکزہ کا منہ جالی کے اندر کر کے گھی انڈیلنا شروع کردیا - خدام پھر اس کے پیچھے دوڑے وہ اسی حالت میں چلتا ہوا ترکی یہ معلوم کر کے کہ بدوی کا کام ہوگیا ہے کہنے لگا کہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ میں بھی معاذ اللہ قومی عصیبت موجود ہے - اور یہ کہہ کر چل دیا - مگر یہ اثر اس بدوی کی خوش عقیدگی کا تھا - اس میں قومی ہمدردی کیا تھی - وہ ایسا ہوتا تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضور کو خاص شفقت نہ ہوتی - کیونکہ وہ عرب قوم ہی سے نہیں تھے - ہاں یہ ممکن ہے کہ کسی میں وہ تعلق ایک ساتھ جمع ہوجائیں قومی بھی اور دینی بھی اور مزید توجہ کا سبب ہو جاوے مگر یہ نہیں کہ جہاں صرف قومی ہی تعلق ہو اور دینی نہ ہو وہاں بھی توجہ ہو - اصل مدار حضور کی توجہ کا صرف دین تھا - چنانچہ تمام صحابہ کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ شفقت تھی کہ ہر ایک کے ساتھ بردرانہ اور مساویا نہ برتاؤ تھا - چنانچہ ایک مرتبہ حضور نے ایک صحابی کی کوکھ میں مزاحا انگلی چبھو دی - انہوں نے عرض کیا کہ حضور میں تو بدلہ لوں گا - حضور نے ارشاد فرمایا اچھا بدلہ لے لو - انہوں نے عرض کیا کہ میرے بدن پر تو اس وقت کرتہ نہ تھا - حضور نے کرتہ ہٹا دیا بس انہوں نے بوسہ لے لیا اور عرض کیا کہ میری غرض تو صرف اس شرف کے حاصل کرنے کی تھی ورنہ بدلہ لینے کی کیا مجال - دوسری طرف حضور کے ہیبت و جلال کا یہ عالم تھا کہ کسی نے ایک صحابی سے حضور کا حیلہ مبارک دریافت کیا - انہوں نے فرمایا کہ جس نے کبھی حضور کو آنکھ بھر کر دیکھا ہو اس سے پوچھو - میری تو ہیبت و جلال کی وجہ سے کبھی چہرہ مبارک کی طرف آنکھ ہی نہ آٹھ سکی - یہ تھی شان مبارک حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اور صحابہ کی حضرت عارف شیرازی نے خوب فرمایا ہے