ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
سوار ہوا ہے کہ بدون عمل کے وعظ کہنا منع ہے اور استدلال میں آیت اتامرون الناس بالبر و تنسون نفسکم پیش کرتے ہیں حالانکہ یہاں محل انکار تنسون انفسکم ہے نہ تامرون مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنی اصلاح کو نہ بھولنا چاہیئے - یہ مطلب نہیں کہ جس بات پر خود عمل نہ کرو اس کو دوسروں تک بھی نہ پہنچاؤ - ترل عمل ایک گناہ ہے تو ترک تبلیغ دوسرا گناہ ہے - ایک گناہ کی وجہ سے دوسرے گناہ کا ارتکاب جائز نہیں ہو جاتا - بعض لوگوں کو لم تقولون مالا تفعلون کبر مقتا عند اللہ ان تقولوا مالا تفعلون سے شبہ ہوا ہے - میں نے اس کا ایک جواب دیا تھا جس کو بعض اہل علم اذکیاء نے بہت پسند کیا کہ یہاں قول سے مراد دعوت نہیں - بلکہ دعویٰ ہے یعنی جو کام نہ کرسکو یا نہیں کرتے ہو اس کا دعویٰ نہ کرو - خود شان نزول اس کی مؤید ہے کیونکہ آیت دعوے ہی کے بارے میں نازل ہوئی ہے بہر حال ان شبہات سے وعظ کو بند نہ کیا جائے بلکہ اسکا اہتمام کیا جائے - ایک فائدہ وعظ میں یہ بھی ہے کہ اس سے اپنی کوتاہیوں کی بھی اصلاح ہوجاتی ہے - بعخ دفعہ واعظ میں کوتاہی ہوتی ہے مگر سامعین میں سے کسی کو اس سے نفع ہوتا ہے وہ اس کو دعا دیتا ہے - اس کی برکت سے واعظوں کی بھی اصلاح ہوجاتی ہے - ہمارے حضرت حاجی صاحب رحمتہ اللہ علیہ بیعت اس نیت سے کرتے تھے کہ اگر ہم عنداللہ مقبول ہوئے تو ہم اس کو بچالیں گے یا وہ مقبول ہوا تو وہ ہم کو بچالے گا - سبحان اللہ کیسی اچھی نیت ہے - اس پر جناب مولوی ظفر احمد صاحب نے عرض کیا کہ ایک حدیث طویل میں جس میں جناب رسولا اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض اعمال کے فضائل بیان فرمائے ہیں - یہ بھی وارد ہے ورایت رجلا من امتی جاء تہ زبانیۃ العزاب فجاءۃ امرہ بالمعروف و نھیہ عن المنکر فاستنقذہ من ذلک ( میں نے اپنی امت میں ایک شخص کو دیکھا جس کے پاس عذاب کے فرشتے آئے - اسی وقت اس کو اس کے پاس امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پہنچا جس کا وہ عامل تھا - اس نے اس کو عذاب سے بچا لیا ) حضرت والا نے فرمایا لیجئے حدیث سے بھی اس مضمون کی تائید ہوگئی - بس اپنی حالت کو نہ دیکھا جائے اللہ کا نام کے کر وعظ کہنا شروع کردیا جائے - بعض لوگوں کو میرے مطبوعہ