ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
رعایت کی وجہ سے سچی بات ہوتی ہے اس لئے مبالغہ آمیز سندوں سے زیادہ موثر اور مفید ہوتی ہے چونکہ یہ ایک قسم کی شہادت ہے اس لئے مجھے اس کا اہتمام کرنا پڑتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں پکڑ نہ ہو اور مخلوق دھوکہ نہ کھائے اور صاحب درخواست سے مسودہ اس واسطے لکھوالیتا ہوں کہ مجھے یہ معلوم ہوجائے کہ اس کا مقصود کیا ہے - اس سے مجھے مدد ملتی ہے پھر میں اس کے اندر کمی بیشی کر کے اپنے طرز موافق سند لکھ دیتا ہوں اور ان حدود کی رعایت کی وجہ سے ایسی تحریر مستقل تصنیف کی مثل ہوتی ہے جو لوگ میرے طرز سے واقف ہیں ان پر مبالغہ آمیز سند کا اثر نہیں ہوتا وہ دیکھتے ہی پہچان لیتے ہیں کہ یہ اس کا لکھا ہوا نہیں ہے - چنانچہ ایک مرتبہ بڑا تماشاہ ہوا - ایک صاحب نے بھائی اکبر علی کے پاس مجھ سے سفارش چاہی میں نے ان سے کہہ دیا کہ سفارش کا مسودہ لکھ کر لے آؤ - انہوں نے بڑا زور دار مسودہ لکھا - میں نے اس میں کمی بیشی کر کے اپنے طرز پر سفارش کا مضمون لکھ دیا - وہ اس کو دیکھ کر خوش نہ ہوئے کہ یہ تو پیھکا مضمون ہے میں نے کہا اچھا لایئے میں آپ ہی کا مضمون لکھ دوں - میں نے انہیں کے مسودہ کا مضمون اپنے قلم سے نقل کردیا وہ اس کو لے کر بھائی کے پاس گئے تو خط پڑھتے ہی انہوں نے کہا کہ یہ مضمون ان کا نہیں وہ اس طرز کا مضمون نہیں لکھا کرتے معلوم ہوتا ہے تم ان کو پریشان کیا ہے - تمہاری خاطر سے انہوں نے یہ مضمون اپنی طبیعت کے خلاف لکھ دیا ہے تم تو میرے بڑے بھائی کو پریشان کرو اور میں تم کو راحت دوں یہ نہیں ہو سکتا - بس میری طرف سے آپ کو جواب ہے - میں نے یہ قصہ سنا تو کہا کہ لو اور زور دار سفارش لکھواؤ - آج کل کے طرز پر اردو لکھنا اور زور دار مضمون بنانا ہم کو بھی آتا ہے - ایک دفعہ میں نے ایک جنٹلمین کے ایک خط کے جواب میں نئی اردو میں مضمون لکھا جس کو دیکھ کر ان کو بڑی حیرت ہوئی - انہوں نے کہا کہ ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ علماء آج کل کے طرز پر اردو نہیں لکھ سکتے - میں جواب دیتا ہوں کہ یہ تو غلط ہے بحمد اللہ ہمیں اس پر بھی قدرت ہے مگر ہم کو تو اس سے نفرت ہے ہم اپنے بزرگوں کے طریقہ کو چھوڑنا پسند نہیں کرتے اس لئے یہ طرز بھی اختیار نہیں کرتے - اسی طرح تصدیق و سفارش اور سند وغیرہ میں ہمارے بزرگوں کا طریقہ یہی ہے کہ سچی بات ہو زور دار با مبالغہ آمیز نہ ہو یہی طرز مجھے پسند ہے -