ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
ایک مرتبہ حضرت سلطان جی کو سماع کا تقاضا ہوا - فرمایا کوئی قوال تلاش کرو- خدام نے تلاش کیا کوئی مہ ملا - فرمایا حمدی الدین ناگوری کے مکتوبات لاؤ - یہ آپ کے اصحاب میں سے ہیں ان کے خطوط کسی خادم کے پاس جمع تھے - چنانچہ وہ مکتوب لائے گئے فرمایا سناؤ - چنانچہ ایک خط پڑھا گیا جس کا پہلا جملہ یہ تھا - از خاکپائے درویشاں و گردرواہ ایشاں حمید الدین ناگوری اس جملہ کا سننا تھا کہ حضرت سلطان جی کو وجد آگیا - اور تین روز تک یہ حالت رہی - یہ تھا ان کا حضرات کا سماع مگر فقہاء اس کو بھی حرام کہتے ہیں کیونکہ سماع کی خاصیت ہے کہ وہ کیفیت موجود کو قوی کردیتا ہے - وہ جانتے ہیں کہ اگر اس سماع کی بھی اجازت دیدی جائے گی تو ان جو کیفیت اس وقت موجود ہے اس کو قوت ہوگی اور زیادہ تر نفس میں شر ہے اس کو قوت ہو کر وہ مفاسد کی طرف مفضی ہوگا - کیونکہ عوام میں شہوت اور نفس کی خواہش غالب ہے - سماع سے اس میں ہیجان ہوگا - قوت بڑھ جائے گی اور اس سے سخت مفاسد پیدا ہوں گے چنانچہ شاہ لطف رسول صاحب نے ایک درویش کا واقعہ بیان کیا کہ وہ اپنی ایک مریدنی سے گانا سنا کرتا تھا - ویک روز عین حالت سماع میں نفس کو جوش ہوا - عورت کا ہاتھ پکڑ کر حجرے میں لے گیا اور منہ کالا کیا - فراغت کے بعد باہر آکر مریدوں سے کہنے لگا جب ہوش نہ رہا ہوش - تو عوام کو سماع کی اجازت دینے میں یہ مفسدہ ہے اس لئے بزرگوں نے کہا الغنا رقیۃ الزنا غناز نا مامنتر ہے - فقہاء چونکہ منتظم ہیں تمام عالم کا انتظام ان کے سپرد ہے اس لئے وہ بعض دفعہ ایسی چیز کو بھی منع کرتے ہیں جس میں شرعا کچھ گنجائش بھی ہوسکتی ہے جس طرح وبا کے زمانہ میں ڈاکڑ کھیرے ککڑی کو مطقلا منع کردیتا ہے - اگرچہ قلیل مقدار مضر نہیں ہوتی اور صیحح المعد کو زیادہ مقدار بھی مضر نہیں ہوتی - لیکن اگر ڈاکٹر اس تفصیل سے منع کرے گا تو کوئی بھی اس کے کھانے باز نہ آئے گا - ہر شخص اپنے کو صیحح المعدہ سمجھنے لگے گا اور کثیر مقدار کو بھی قلیل ہی کہے گا - اس لئے انتظام کا مقتضی یہی ہے کہ وباء کے زنامہ میں کسی کو بھی کھیرے ککڑی کی اجازت نہ دی جائے - بلکہ کھیتوں میں ان کو ڈلوادیا جائے - یہی حالت فقہاء کی ہے کہ حضرات صوفیہ نے جس سماع کو اختیار کیا تھا اور شرعا اس میں گنجائش بھی تھی مگر فقہاء نے انتظاما اس سے بھی منع