ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
تھے ان کی اتنی ندامت اور رونا بھی حضرت والا نے کافی نہیں سمجھا اور یہ تجویز بالکل صیحح تھی کئی مہینہ کے بعد ثابت ہوا کہ ان پر اثر بہت کم ہوتا ہے معلم کو متعلم کی طبیعت کا اندازہ صیحح کرنا غایت درجہ کا کمال ہے اور تربیت کے لئے شرط ہے - حضور صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق تعالیٰ نے معلوم فرمایا پھر رحمتہ اللعالمین فرمانے کے ساتھ واغلظ علہیم حکم فرمیا ہے شعر درشتی و نرمی دربہ است چو گزن کہ جراح و مرہم نہ است کفار کے ساتھ سخت زبانی شریعت ہے : - ( 2 9 کفار کے ساتھ بھی سخت زبانی تعلیم شریعت کے خلاف ہے بدلیل فقولا لہ قولا لینا لعلہ یتذکرا ویخشی پس بولنا تم فرعون سے نرم بات شاید کہ وہ نصیحت پکڑے یا ڈرے 12 ) امر مع اسکی وجہ کے ہے یعنی نرم گفتار سے فرعون جیسے کافر کی راہ پر آنے کی امید کی جاسکتی ہے - بشیریں زبانی و لطف و خوشی توانی کہ پہلے بموئے کشی نرم زبانی سے سخت سے سخت مخالف بھی موافق بن سکتا ہے اور سخت زبانی کی نسبت ارشاد ہے ولو کنت فظا غلیظ القلب لانفضوا من حولک ( ترجمہ اگر ہوتے آپ بد گو اور سخت دل سے تو آپ کے پاس سے بھاگ جاتے ) یہاں سے ان لوگوں کو سبق لینا چاہئے کہ عوام مومنین سے بھی کھینتے ہیں - ایک مولوی صاحب کا قصہ ہے کہ عامی آدمی سے راستہ میں ملاقات ہوئی اس بے چارہ نے سلام کیا تو انہوں نے جواب بھی نہیں دیا اور منہ پھیرا لیا -اسکو سخت ناگوار ہو اور مولوی صاحب کو پکڑ لیا کہ جناب ہم نے سنا ہے کہ سلام کرنا تو سنت ہے مگر جوواب دینا فرض - آپ نے جواب کیوں نہیں دیا - کہا قرآن شریف میں ہے کہ جاہلوں سے کچھ تعلق نہ رکھو - واذا خاطبھم االجاھلون قالوا سلما اس نے کہا اس کا ترجمہ کیجئے کہ مولوی صاحب نے ترجمہ کیا جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں تو وہ سلام کرتے ہیں یعنی ٹال دیتے ہیں - کہا جناب ٹالیئے نہیں یعنی کو رہنے دیجئے - آیت تو خود بول رہی ہے کہ ہم آپ کو سلام بھی نہ کریں بات ہی کریں - تو جب بات کریں آپ سلام ہی کریں - دس دفعہ بات کریں تو دس دفعہ آپ سلام کریں چہ جائے کہ سلام کا بھی جواب ندارد - مولوی صاحب کے