ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
جاتی ہے جیسے یہ شخص جس کا قصہ مذکور ہوا اور اسی واسطے اس کے امتحان کے لئے یہی کافی ہو گیا کہ رمضان میں بیعت نہ فرمایا اور بعد رمضان پر ٹالا کہ رمضان آئے گا تو ثابت ہوگا کہ طالب اور مخلص ہے اور با وجود رمضان دیر کرنے کے چونکہ اس نے سچ کہہ دیا اور تصنع اور بناوٹ سے کام نہیں لیا اس واسطے اس غلطی پر نظر نہیں فرمائی - یہ شان عفو و کرم ہے اور بعضے چالاک وہو شیار ہوتے ہیں کہ اپنے عیب کو ظاہر نہیں ہونے دیتے - ان کی یہ حالت معلوم ہو جاتا تو سہل ہے کہ یہ چالاک اور ہوشیار ہیں لیکن اصل حالت جس پر مدار بیعت ہے معلوم ہونا سہل نہیں - اور بعضے ایسے چالاک اور ہوشیار ہوتے ہیں کہ اپنی چالاکی اور ہوشیاری بھی چھپاسکتے ہیں - ظاہرا ایسے سیدھے بن جاتے ہیں کہ لوگ ان کو بیوقوف جانتے ہیں ان کی یہ حالت بھی معلوم ہونا مشکل ہے کہ یہ چالاک ہیں اور قلبی حالت معلوم کرتا تو عقدہ مالا یخل ہے - منافقین نے حضرات انبیاۓ علہیم السلام جیسے مبصرین کو بھی دھوکہ دیدیا - ولا یرد علیہ قولہ تعالیٰ و لتعرفنھم فی لحن القول فانہ مقید بلو نشاء لا رینا کھم فیحاصل الآیۃ ان معرفتک ایاھم مقید مبشیتنا فقد کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یعرفھم وقد کان لا یعرف وکذلک اولاء الامۃ شیخ کامل کی شںاخت : - اور بعضے خود اس دھوکہ میں پڑے ہوئے ہوتے ہیں کہ ہم طالب اور مخلص ہیں اور واقع میں ان کی طلب صرف ہانڈی کا سا ابال ہوتی ہے کہ لخطہ بھر کے بعد کچھ بھی نہیں - یہ اکثر وہ لوگ ہیں جو سفر میں بیعت کے خواستگار ہوتے ہیں - یا ایک وعظ سن کر شیفتگی ظاہر کرتے ہیں - بعضے واقعی طالب اور مخلص ہوتے ہیں مگر کم ہمت ہوتے ہیں - ان کی ہمت کا اندازہ معلوم کرنے کے لئے بھی امتحان کی ضرورت ہوتی ہے - کیونکہ تعلیم کا اندازہ ہمت کے اندازے پر موقوف ہے جیسے کہ تمام حالتیں مختلف ہیں ایسے ہی امتحان کے طریقے بھی مختلف ہیں - نہ حالتیں ضبط کے اندر آسکتی ہیں نہ طرق امتحان - حضرت والا سفر کی بیعت کو تو بالکیہ ناپسند فرماتے ہیں اور اکثر درخواست کنندوں سے فرمادیتے ہیں چند روز تھانہ بھون میں آکر رہو االا یہ کہ پہلے سے حضرت والا کو اس کے حالات معلوم ہوں تو سفر میں بھی کبھی بیعت کرلیتے ہیں - اور کسی کو فرمادیتے ہیں دو مہینے تک تھانہ بھون آکر رہو - تب بیعت کروں گا اور کسی سے