ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
|
مزاح کی اس حکمت کے متعلق حضرت والا کمالات مدادیہ میں صفحہ 40 پر فرماتے ہیں وھذہ الحکمۃ مما القی فی روعی فی المنام - اور حقیقہ الطریقہ میں حضرت والا نے اس قصہ کو اس طرح بیان فرمایا ہے - وقد اجبت بھذا ملکۃ من مملوک اور بار ایتھا فی المنام و رایتنی رکبا معھا علی عجلۃ قد عوضت علی شبھہ فی نبویۃ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بانہ کان یمازح ینافی الوقار من لو ازم النبوۃ و قالت لا شبھۃ فی حقیقۃ الاسلام سوی ھذا فلما اجبتھا عنہ المصلحۃ سکتت و سلمت ـ ثم بعض اقرائن فی الیقظۃ دل علی انھا العلھا سلمت باطنا صفحہ 132 فوائد و تنائج خواب از قبیل کشف ہے کوئی بات خواب میں معلوم ہوجانا ممکن ہے مگر ظنی ہے یقین نہ کرنا چاہئے - اس ان کی مؤید دلائل شرعی ہوں تو خواب سے اور تقویت ہوسکتی ہے اور اگر خواب دلایل شرعی کے خلاف ہو تو ہرگز قابل اعتبار نہیں اور اگر نہ موافق ہو نہ مخالف تو ظن کے درجہ میں ہوگا - پورا و ثوق نہ چاہئے اور کسی محذور شرعی میں اس کی بدولت نہ پڑنا چاہئے - اول تو شریعت نے خواب کو دلیل نہیں قرار دیا دوسرے تعبیر کا کوئی قاعدہ منظبط نہیں - کبھی تعبیر باکلک برعکس ہوتی ہے جیسے حضرت والا کی خواب میں صفحہ پر بیان ہوا - ہاں اس پر کسی ایسے فعل کی بنا جو شرعی مباح ہو ممکن ہے - مثلا کسی کو خواب میں معلوم ہو کہ گھر میں آگ لگنے والی ہے تو جائز ہے کہ مکان کو چھوڑ دے اور ایسے فعل کی خواب پر بنا کرنا جائز نہیں جو شرعا کسی درجہ میں بھی برا ہو حتیٰ کہ مکروہ بھی ہو تو اس خواب کا اعتبار کرنا درست نہیں - بنا بریں خواب میں کسی کے اوپر چوری کا شبہ ہے اور خواب میں معلوم ہوا کہ وہی چوری ہے یا خواب میں کسی نے کسی عمل کی نسبت بشارت دی جس سے قبولیت معلوم ہوئی یا خواب میں کسی عمل کی نسبت غیر مقبول ہونا معلوم ہوا وغیرہ وغیرہ تو دل میں ان باتوں کا سیا جمالینا کہ ظن غالب ہوجاوے جائز نہیں ہاں اس خواب کی بنا پر دیگر دلائل کو تلاش کرنا درست ہے -