خزائن القرآن |
|
کہ آپ اس وقت چشمہ نہ لگائیے تو آپ کا یہ کلام صحیح ہو گا کیوں کہ میں نے چشمہ لگایا ہوا ہے۔ جب چشمہ لگا ہے تب ہی تو آپ کہیں گے نہ لگائیے۔ معلوم ہوا کہ ہر نہی اپنے منہی عنہ کے ثبوت کو چاہتی ہے، ہر منع کرنا اس ممنوع چیز کا وجود چاہتا ہے اور اگر آنکھوں پر چشمہ نہیں لگایا ہوا ہے پھر آپ کہیں کہ چشمہ اتار دیجیے تو یہ جملہ غلط ہوجائے گا یا نہیں؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی یعنی جو اپنے نفس کی بُری خواہشوں کو روکتے ہیں، معلوم ہوا کہ بُری خواہش کا وجود ضروری ہے کیوں کہ بُری خواہش سے اللہ تعالیٰ منع فرما رہے ہیں، لہٰذا ممنوع چیز کا وجود ضروری ہوا۔ معلوم ہوا کہ بُری خواہش تو ہو گی بس ہمیں اس کوروکنا ہے، اس پر عمل نہیں کرنا ہے۔ اس لیے میرے پیارے دوستو! بُری خواہش سے گھبرایا نہ کرو، ایک کروڑ تقاضے برائی کے آئیں تو آنے دو بس ان پر عمل نہ کرو اور جتنی بُری خواہشوں کی بھر مار ہو گی روکنے میں اتنا ہی زیادہ مجاہدہ ہو گا اور جتنا زیادہ مجاہد ہ ہو گا اتنے ہی انوار زیادہ ہوں گے۔ شدید خواہش کے سیلاب کو روکنے میں زیادہ جھٹکا لگے گا جیسے تیز پانی کو جھٹکا دے کر بجلی پیدا کی جاتی ہے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ ہمیں مجاہدہ کا جھٹکا دے کر تجلی دینا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اِنَّمَا یَخۡشَی اللہَ مِنۡ عِبَادِہِ الۡعُلَمٰٓؤُا؎ اللہ تعالیٰ سے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علماء ہیں لہٰذا جو عالم اللہ تعالیٰ سے نہ ڈرے وہ اس آیت کی رو سے عالم نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ علم کے لیے خشیت لازم ہے جس طرح آگ کے لیے حرارت لازم ہے۔ اگر کسی آگ میں ٹھنڈک کا اثر آ جائے تو وہ آگ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ میرے بندوں میں سے جو علماء ہیں وہی مجھ سے ڈرتے ہیں۔ لہٰذا اگر تم عالم ہو تو کیوں نہیں ڈرتے؟ یہی دلیل ہے کہ تم عالم نہیں ہو اور کہیں اللہ تعالیٰ نے خشیت کے بجائے خوف کا لفظ استعمال فرمایا ہے مثلاً: یَخَافُوۡنَ یَوۡمًا تَتَقَلَّبُ فِیۡہِ الۡقُلُوۡبُ وَ الۡاَبۡصَارُ ؎ اور جیسے اس آیت میں فرمایا وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ اور خوف اور خشیت کا فرق حضرت علامہ آلوسی ------------------------------