خزائن القرآن |
|
آیت نمبر۸۱ اَفَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ ؎ ترجمہ: سو کیا آپ نے اس شخص کی حالت بھی دیکھی جس نے اپنا خدا اپنی خواہشِ نفسانی کو بنا رکھا ہے۔ اللہ جب ملتا ہے جب لَاۤ اِلٰہ کی تکمیل ہو۔ جو غیر اللہ سے جان نہ چھڑا سکا وہ کیسے اللہ کو پائے گا؟ اللہ تعالیٰ نے کلمہ اور ایمان کی بنیاد میںلَاۤ اِلٰہ کو مقدم کیا ہے کہ میں خالقِ عطرِ عود ہوں لیکن تم غیر اللہ کی نجاست اور غلاظت کے ساتھ میری خوشبو ئے قرب چاہتے ہو، یہ نا ممکن ہے پہلے لَاۤ اِلٰہ کی تکمیل کرو۔ پتھروں کے الٰہ سے تو تم کلمہ کی برکت سے بچ گئے لیکن جو چلتے پھرتے الٰہ ہیں یعنی حسین صورتیں ان سے تم نے کہاں اپنے دل کو بچایا؟یہ بھی الٰہِ باطل ہیں۔ اور اس کی دلیل یہ آیت ہے اَفَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ اےمحمد(صلی اﷲ علیہ وسلم)!کیا آپ نے ان کو دیکھا جو اپنے نفس کی خواہش کو خدا بنائے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ غضِّ بصر کا حکم دے رہے ہیں، رسول اللہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بد نظری کو آنکھوں کا زِنا فرما رہے ہیں لہٰذا یہ حسین شکلیں بھی الٰہِ باطل ہیں، ان کو بھی دل سے نکالو تب لَاۤ اِلٰہ کی تکمیل ہوگی۔ تکمیلِ لَاۤ اِلٰہَ کے بغیر اِلَّا اللہُ کی تجلیات سے تمہارا قلب محروم رہے گا۔ تقویٰ کا مفہوم یہ ہے کہ جن باتوں سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں ان باتوں کے تقاضوں کے باوجود ان پر عمل نہ کر کے بندہ غم اُٹھا لے اور زخمِ حسرت کھا لے اسی کا نام تقویٰ ہے اور اسی سے اللہ ملتا ہے ۔ منتہائے اولیائے صدیقین تک پہنچنے کی تدبیر یہ ہے کہ اللہ والوں کی صحبت سے، ذکر اللہ سے، مجاہدہ سے اور نفس پر گناہ سے بچنے کا غم اُٹھانے سے ہم کو اتنا ایمان و یقین اللہ تعالیٰ عطا فرما دے کہ ہماری زندگی کی ہر سانس اللہ پر فدا ہو اورایک سانس بھی ہم اللہ کو ناراض نہ کریں اور اگر کبھی خطا ہو جائے تو آنسوؤں سے سجدہ گاہ کو تر کر دیں اور اتنا روئیں کہ وہ خطا سبب ِعطا ہو جائے۔ ------------------------------