خزائن القرآن |
صدقِ دل سے توبہ کرتا ہے اور پختہ عزم کرتا ہے کہ اے اللہ! میںآیندہ ہر گز گناہ نہ کروں گا، جان دے دوں گا مگر آپ کو ناراض نہ کروں گالیکن باوجود پوری کوشش کے پھر اس کی توبہ ٹوٹ جاتی ہے۔ پھر یہ ندامت کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے توبہ کرتا ہے، گڑ گڑاتا ہے، عاجزی کرتا ہے اور آیندہ گناہ کا عزم نہیں رکھتا حدیثِ پاک میں ہے کہ ایسا شخص گناہ پر اصرار کرنے والوں میں نہیں ہے چاہے دن میں ستر بار اس کی توبہ ٹوٹ جاتی ہو۔ لہٰذا تائبین کو مایوس نہ ہونا چاہیے۔آیت نمبر۲۱ الَّذِیۡنَ یَذۡکُرُوۡنَ اللہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوۡدًا وَّ عَلٰی جُنُوۡبِہِمۡ وَ یَتَفَکَّرُوۡنَ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ؎ ترجمہ: وہ لوگ اﷲ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں کھڑے بھی، بیٹھے بھی، لیٹے بھی اور آسمانوں اور زمین کے پیدا ہونے میں غور کرتے ہیں۔تفکر فی المخلوقات سے استدلالِ توحید پر مغفرت روایت میں ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بدوی تھے، آسمان کے نیچے گاؤں میں لیٹنے کی عادت ہوتی ہے، گاؤںمیں لیٹے ہوئے تھے۔ آسمان کی طرف دیکھا اور یہ کہا یٰاَیُّھَا السَّمَآءُوَالنُّجُوْمُ اَشْھَدُ اَنَّ لَکِ رَبًّا وَّخَالِقًا اے آسمانو! اور ستارو! تمہارا کوئی پیدا کرنے والا ہے، کوئی رب ہے، کوئی تمہارا خالق ہے پھر اس نے کہا اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ اے اللہ! مجھ کو بخش دیجیے۔؎ اسی وقت وحی نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ اپنے اس اُمتی کو خوشخبری سنا دیں کہ میں نے اس کے اس استدلالِ توحید کو قبول کر لیا کہ اس نے مجھے کس طرح سے پہچانا، اے آسمانو اے ستارو! تمہارا کوئی رب اور پیدا کرنے والا ہے، اے اللہ! مجھ کو بخش دیجیے۔ تو ایک دیہاتی اور بدوی کے اس استدلال کو اللہ تعالیٰ نے پسند فرما کر اس کی مغفرت ------------------------------