خزائن القرآن |
|
دیتے ہیں یعنی بڑے بڑے لوگوں کو، بڑے بڑے سرداروں کو گرفتار کر لیتے ہیں تاکہ کبھی بغاوت نہ کر سکیں۔ حضرت فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ جس کے قلب میں اپنی عزت کا اور اپنی عظمتوں کا جھنڈا لہراتے ہیں ، جس کے دل کی بستی کو اپنے لیے قبول فرماتے ہیں اس دل کے کبر کے چوہدری کو ،عجب کے چوہدری کو، ریا کے سردار کو گرفتار کر لیتے ہیں۔ اس کے نفس کو مٹا دیتے ہیں۔ لہٰذا کبر اور نسبت مع اللہ جمع نہیں ہو سکتے۔ وہ شخص ہرگز صاحبِ نسبت نہیں ہو سکتا جس کے دل میں رائی کے برابر بھی تکبر ہو۔آیت نمبر ۴۰ قُلۡ لَّنۡ یُّصِیۡبَنَاۤ اِلَّا مَا کَتَبَ اللہُ لَنَا ۚ ہُوَ مَوۡلٰىنَا ۚ وَ عَلَی اللہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ؎ ترجمہ: آپ فرما دیجیے کہ ہم پر کوئی حادثہ نہیں پڑ سکتا مگر وہی جو اﷲ تعالیٰ نے ہمارے لیے مقدر فرمایا ہے۔ وہ ہمارا مالک ہے اورسب مسلمانوں کو اپنے سب کام اﷲ تعالیٰ کے سپرد رکھنے چاہئیں۔ لَنَا کا ’’لام‘‘ یہاں نفع کے لیے ہے۔ مؤمن کو جو مصیبت پہنچتی ہے اس میں مؤمن ہی کا نفع ہے۔ اس کے بعد حکیم الامت نے مفتی صاحب سے فرمایا کہ چوں کہ آپ منطقی آدمی ہیں اس لیے منطق سے سمجھاتا ہوں کہ مؤمن کو جو تکلیف اللہ دیتا ہے اس میں سرا سر مؤمن کا ہی فائدہ ہے۔ مؤمن کو جو تکلیف یا بلا اللہ کی طرف سے پہنچتی ہے اس میں صرف چار صورتیں ہیں۔ چیلنج کرتا ہوں کہ پانچویں کوئی صورت نہیں ہے۔ ۱)مؤمن کو تکلیف دے کر اللہ سو فیصد فائدہ اٹھا لے یہ نا ممکن ہے کیوں کہ اس سے لازم آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نعوذ باللہ بندوں کا محتاج ہے اور چوں کہ اللہ تعالیٰ سارے عالم سے بے نیاز ہے لہٰذا یہ صورت محال ہے۔ ۲)دوسری صورت یہ ہے کہ اللہ سو فیصد نفع نہ لے، پچاس فیصد لے یعنی ففٹی ففٹی کر لے کہ پچاس فیصد بندے کو دے دے، پچاس فیصد خود لے لے۔ یہ بھی نا ممکن ہے کہ اس میں بھی اللہ کا محتاج ہونا لازم آتا ہے اور اللہ کسی کا محتاج نہیں نہ کم نہ زیادہ۔ ساری مخلوق اس کی محتاج ہے۔ ------------------------------