خزائن القرآن |
|
اللہ کی مغفرت و رحمت ہے، اب انسان کو اختیار ہے کہ ان دو میں سے جس کو چاہے اپنا مقصودِ اعظم بنالے۔آیت نمبر۹۷ یَرۡفَعِ اللہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ ۙ وَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ دَرَجٰتٍ؎ ترجمہ: اﷲ تعالیٰ تم میں ایمان والوں کے اور( ایمان والوں میں) ان لوگوں کے جن کو علم (دین) عطا ہوا ہے (اُخروی) درجے عطا کرے گا۔اہلِ علم کا بلند درجہ علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ تفسیر روح المعانی میں فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں یَرۡفَعِ اللہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ اﷲ تعالیٰ ایمان والوں کا درجہ بلند کرتا ہے، آگے فرماتے ہیں وَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ دَرَجٰتٍ تو عالم بھی تو ایمان والے ہیں، ان کی تعریف تو ان میں شامل تھی لیکن وَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ میں ان کو الگ کیوں بیان کیاگیا؟ علامہ آلوسی سید محمود بغدادی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ سارے مؤمن کتنے ہی مبلغ ہوجائیں، کتنے ہی عابد ہوجائیں، اتنی کرامت ہوجائے کہ آسمانوں میں اڑنے لگیں لیکن وَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ یعنی علماء کے درجات کے مقابلے میں نہیں آسکتے۔ علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے اس آیت میں علماء کو الگ بیان کرکے جتنی عزت بخشی ہے کسی اور کو ایسی عزت عطا نہیں فرمائی۔ اسی لیے بزرگانِ دین فرماتے ہیں کہ کوئی ایسی بات نہ کرو جس سے عوام کے دل میں علماء کی عظمت کم ہو۔ اگر عوام میں علماء کی عظمت نہ ہوگی تو بڑا فتنہ پیدا ہوگا۔ پھر نتیجہ کیا ہوگا کہ علماء کو بھی نفرت پیدا ہوجائے گی اور اس سے کیا ہوگا؟ دونوں کو نقصان پہنچے گا، علماء کو کم پہنچے گا عوام کو زیادہ پہنچے گا،علماء کو یہ کہ عوام کی خدمت کی سعادت نہیں ملے گی اور عوام علماء سے متنفر ہوکر بالکل ہی محروم ہوجائیں گے،نہ صحیح راستہ پر رہیں گے نہ حدود کا خیال کریں گے۔ ------------------------------