خزائن القرآن |
|
دنیا کے اندھیرے میں اگر اللہ کو پہچاننے کا ہنر سیکھ لیا تو پھر دوسرے ہنر سیکھنا کچھ مضر نہیں کیوں کہ پھر کوئی ہنر آپ کو اللہ سے غافل نہیں کر سکتا، ڈاکٹر اور انجینئر بننا منع نہیں ہے بشرطیکہ آپ اللہ سے غافل نہ ہوں جیسے کہ اس حکایت سے معلوم ہوا کہ چشمِ سلطان شناس ہی کام آئی باقی ہنر تختہ دار پر لے گئے لہٰذا اللہ سے ہم لوگ وہ آنکھیں مانگ لیں جو اس دنیا کے اندھیرے میں اللہ کو پہچاننے والی ہوں قیامت کے دن یہی باعثِ نجات ہوں گی اور اللہ کو کس طرح پہچانوگے۔ اس کا طریقہ خود اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اَلرَّحۡمٰنُ فَسۡـَٔلۡ بِہٖ خَبِیۡرًا رحمٰن کو پہچاننے کے لیے ان بندوں کے پاس جاؤ جو باخبر ہیں، خَبِیْرًا کی تفسیر علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ کی ہے اَلْمُرَادُ بِخَبِیْرَانِ الْعَارِفُوْنَ۔ خَبِیْرًا سے مراد عارفین ہیں، یعنی باخبر لوگ وہ ہیں جو اللہ کو پہچاننے والے ہیں۔ ان کی صحبت کی برکت سے ہی اللہ کی معرفت نصیب ہو گی۔ ہمارے پر دادا پیر حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے غلافِ کعبہ پکڑ کر یہ دعا مانگی تھی ؎ تو کر بے خبر ساری خبروں سے مجھ کو الٰہی رہوں اک خبردار تیرا کوئی تجھ سے کچھ کوئی کچھ مانگتا ہے الٰہی میں تجھ سے طلب گار تیرا اے اللہ! کعبہ میں تجھ سے کوئی فیکٹری مانگ رہا ہے، کوئی بادشاہت مانگ رہا ہے، کوئی وزارت مانگ رہا ہے مگر اے اللہ! امداد اللہ آپ سے آپ کو مانگ رہا ہے۔ مبارک ہیں وہ بندے جو اللہ سے اللہ کو مانگ رہے ہیں۔ ہم دنیا مانگنے سے منع نہیں کرتے لیکن اللہ کا سب سے پیارا بندہ وہ ہے جو کہتا ہے کہ اے اللہ! اگر آپ نہ ملے تو سب بے کار ہے۔آیت نمبر ۶۵ اِلَّا مَنۡ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللہُ سَیِّاٰتِہِمۡ حَسَنٰتٍ؎ ------------------------------