خزائن القرآن |
|
اور خشیت کے لیے عمل لازم ہے پس علم کا لازمِ اوّل تو خشیت ہے جو صرف باطن سے تعلق رکھتا ہے لیکن عمل جو علم کا لازمِ ثانی ہے وہ علم کے لازمِ اوّل یعنی خشیت کے لیے دلیل ہو تا ہے پس صحیح علم کے لیے خشیت اور خشیت کے لیے عمل لازم ہے۔ اور جو اہلِ علم ان دونوں لازموں سے کورے ہوں وہ عنداﷲ اہلِ علم نہیں ہیں۔ انہیں اپنے کو عالم سمجھنا محض ایک دھو کہ ہے ؎ جانِ جملہ علمہا این است و ایں کہ بدانی من کیئم در یوم دیں تمام علوم کی جان یہ ہے کہ تجھ کو یہ خشیت حاصل ہو جائے کہ قیامت کے دن ہمارا کیا حال ہو گا جن کو یہ حاصل نہیں توایسے ہی لو گ مَنْ یَّتَفَقَّہْ وَلَمْ یَتَصَوَّفْ فَقَدْ تَقَشَّفَ کے مصداق ہیں یعنی جن لوگوں نے علم حاصل کیا لیکن تصوف و خشیت حاصل نہ کی وہ خشک یعنی بے عمل رہے۔ ایسے حضرات کے لیے ضروری ہے کہ کسی ایسے اہلِ علم کی صحبت میں بیٹھیں جس کا علم اپنے لازمِ باطن یعنی خشیت اور لازمِ ظاہر یعنی عمل دونوں لازموں سے آ راستہ ہو ۔آیت نمبر۷۵ وَ الشَّمۡسُ تَجۡرِیۡ لِمُسۡتَقَرٍّ لَّہَا ؕ ذٰلِکَ تَقۡدِیۡرُ الۡعَزِیۡزِ الۡعَلِیۡمِ ﴿ؕ۳۸﴾ وَ الۡقَمَرَ قَدَّرۡنٰہُ مَنَازِلَ حَتّٰی عَادَ کَالۡعُرۡجُوۡنِ الۡقَدِیۡمِ ﴿۳۹﴾ لَا الشَّمۡسُ یَنۡۢبَغِیۡ لَہَاۤ اَنۡ تُدۡرِکَ الۡقَمَرَ وَ لَا الَّیۡلُ سَابِقُ النَّہَارِ ؕ وَ کُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ ﴿۴۰﴾؎ ترجمہ: اور( ایک نشانی) آفتاب (ہے کہ وہ) اپنے ٹھکانے کی طرف چلتا رہتا ہے یہ اندازہ باندھا ہوا ہے (اس خدا) کا جو زبردست، علم والا ہے۔ اور چاند کے لیے منزلیں مقرر کیں۔یہاں تک کہ ایسا رہ جاتا ہے جیسے کھجور کی پرانی ٹہنی۔نہ آفتاب کی مجال ہے کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن سے پہلے آسکتی ہے اور دونوں ایک ایک دائرے میں تیر رہے ہیں۔ ------------------------------