خزائن القرآن |
|
حضرت ملّا علی قاری لکھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے اَعُوْذُ بِاللہِ کا حکم دے کر بتا دیا کہ جب تم دنیاوی بڑے لوگوں کے کتے کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو میرے کتے کا مقابلہ کیسے کرسکتے ہو لہٰذا مجھ سے پناہ مانگو جس طرح بڑے لوگوں سے جب ملنے جاتے ہو تو ان کا کتا بھونکتا ہے تو آپ کتے سے نہیں لڑتے بلکہ اس کے مالک سے کہتے ہیں کہ ہم آپ سے ملنے آنا چاہتے ہیں، اپنے کتے کو خاموش کر دیجیے تو مالک خاص کوڈ، خاص الفاظ کہتا ہے جس سے کتا دُم ہلانے لگتا ہے تو اﷲ تعالیٰ نے اپنے کتے شیطان سے اور اس کے وسوسوں سے اور اس کی دشمنی سے بچنے کے لیے یہ نہیں فرمایا کہ تم شیطان سے براہِ راست مقابلہ کرو بلکہ اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ کہو کہ میں پناہ مانگتا ہوں اﷲ کی مدد سے اس مردود کتے سے جو گیٹ آؤٹ کیا ہوا دربار کے باہر کھڑا ہے، جو شخص دربار میں داخل ہونا چاہتا ہے یہ بھونکتا ہے لہٰذا تم اس مردود سے بات ہی نہ کرو، مردود ناقابلِ جواب، ناقابلِ التفات، ناقابلِ گفتگو ہوتا ہے بات تو دوست سے کی جاتی ہے، میں تمہارا دوست، تمہارا ولی، تمہارا مولیٰ ہوں لہٰذا مجھ سے کہو اَعُوْذُ بِاللہِ اے اﷲ! تیری پناہ چاہتا ہوں شیطان مردود سے، جب تم نے میری پناہ مانگ لی تو اب شیطان تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔تلاوت سے پہلے تسمیہ کی حکمت اس کے بعد بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ہے، قرآن پاک کی ابتداء ان تین ناموں سے ہوئی ہے، اﷲ اسمِ ذات ہے جو تمام صفات کا حامل ہے اور اسمِ اعظم ہے اور یہ نام سوائے اﷲ کے کسی دوسرے کا نہیں ہوسکتا اور الرحمٰن اور الرحیم اس کی صفت ہے ، اﷲ تعالیٰ نے تسمیہ میں اپنا تعارف کراکے بندوں کو امید دلائی ہے کہ جس مالک کا تم نام لے رہے ہو وہ بڑا مہربان، نہایت رحم والا ہے۔لطائف و معارف سورۂ فاتحہ اَلْحَمْدُ لِلہِ کے معنیٰ ہیں کہ سب تعریفیں اﷲ کے لیے خاص ہیں، میرے شیخ حضرت شاہ عبد الغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اﷲ علیہ نے مجھے تفسیر پڑھاتے ہوئے فرمایا تھا کہ تعریف کی چار قسمیں ہیں: (ا) بندہ اﷲ کی تعریف کرے۔(۲) اﷲ بندے کی تعریف کرے۔ (۳) بندہ بندے کی تعریف کرے۔(۴) اﷲ خود اپنی تعریف کرے اور یہ چاروں قسمیں اﷲ کے لیے خاص ہیں، کوئی مخلوق اس لائق نہیں کہ اس کی تعریف کی جائے، اگر کسی کی تعریف کی جاتی ہے تو وہ دراصل اﷲ ہی کی تعریف ہے کیوں کہ بندہ میں اگر کوئی خوبی ہے بھی