خزائن القرآن |
|
اَلَّذِیْ یَبْذُلُ الْکَوْنَیْنِ فِیْ رِضَا مَحْبُوْبِہٖ جو اللہ پر دونوں جہاں فدا کر دے۔بس دعا کیجیے اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔مقامِ صدیقین سب سے اونچے درجے کے اولیاء اللہ جو ہیں ان کا نام صدیقین ہے مِنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَالشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ شہیدوں سے زیادہ صدیقین کا درجہ ہے اگرچہ وہ زندہ ہیں۔صدیقین کے شہداء سے افضل ہونے کی وجہ شہداء گردن کٹا کے بھی صدیقین کا درجہ نہیں پا سکتے۔ کیوں؟ وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ بھی میرے شیخ فرماتے تھے کہ صدیق کارِ نبوت کی تکمیل کرتا ہے اور شہید کی گردن کٹ گئی تو اب کارِ نبوت کو انجام نہیں دے سکتا، خود تو فدا ہو گیا مگر کارِ نبوت کو صدیق انجام دیتا ہے۔ تو نبی صدیق سے افضل اور صدیق شہداء اور صالحین سے افضل ہوتا ہے۔جانِ پاکِ نبوتﷺ میں صدیقِ اکبر کی محبت اور خود نبوت کی جان عاشقِ صدیقیت ہوتی ہے۔ اس کی دلیل پیش کرتا ہوں۔ غزوۂ اُحد میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شوقِ شہادت میں اپنی تلوار کو میان سے نکالا اور کافروں پر جھپٹے کہ اے کافرو! آج تمہیں قتل کر کے چھوڑوں گا یا صدیق شہید ہوگا کیوں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا خونِ نبوت سر سے پیر تک بہہ رہا ہے اور صدیق کی جانِ عاشق اس بات سے قاصر ہے کہ اپنے نبی کا خون بہتا ہوا دیکھے لیکن جب وہ شوقِ شہادت میں جھپٹے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی جھپٹے ، وہ جھپٹے کافروں پر اور نبی جھپٹا صدیق پر کہ خبردار شِمْ سَیْفَکَ اپنی تلوار کو میان میں رکھ لے اے ابو بکر صدیق! لَا تَفْجَعْنَا بِنَفْسِکَ مجھے اپنی جدائی سے غمگین مت کر۔ معلوم ہوا کہ جانِ نبی مشتاق تھی حیاتِ صدیق کی۔ لہٰذا یاد رکھو کہ بعض بندے زندہ ہیں مگر شہیدوں سے افضل ہیں اگر صدیقین کے درجہ پر ہیں۔ یہ شرط لگا دی جس سے غلط فہمی کا اب کوئی خطرہ نہیں ہے۔