خزائن القرآن |
|
تیسری بشارت …نعمتِ اھتداء وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُہۡتَدُوۡنَ اور یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کا راستہ بھی دکھایا اور مطلوب تک بھی پہنچا دیا یعنی اس حقیقت تک ان کی رسائی ہو گئی کہ حق تعالیٰ ہی ہمارے مالک اور نقصان کا تدارک کرنے والے ہیں۔ ہدایت کے دو معنی ہیں:ایک تو اِرَآءَۃُ الطَّرِیْقِیعنی راستہ دِکھانا اور دوسرے اِیْصَالٌ اِلَی الْمَطْلُوْبِ یعنی مطلوب تک پہنچا دینا۔ اِرَآءَۃُ الطَّرِیْقِ یہ ہے کہ جیسے کوئی راستہ دکھا دے کہ وہ نیپا چورنگی ہے اور اِیْصَالٌ اِلَی الْمَطْلُوْبِ یہ ہے کہ نیپا چورنگی تک پہنچا دیا پس صبر کی دو برکات ہیں: ایک تو اللہ کا راستہ نظر بھی آئے گا اور دوسرے اللہ تعالیٰ تک رسائی بھی ہو گی۔ یہ ہے مُھْتَدُوْنَ کا ترجمہ کہ یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں کہ جن کو اپنے مِلک ہونے اور حق تعالیٰ کے مالک ہونے کا یقین آ گیا اور جو سمجھ گئے کہ اللہ تعالیٰ ہر نقصان کا تدارک فرما دیتے ہیں۔آیتِ شریفہ کی مزید تشریح علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر روح المعانی جلد ۲، صفحہ ۲۳ پر تحریر فرماتے ہیں کہ مصیبت عام ہے جو تکلیف بھی انسان کو پہنچے اس کے نفس کو یا مال کو یا اہل و عیال کو قلیل ہو وہ ناگوار بات یا کثیر ہو یہاں تک کہ کانٹا چبھ جانا، مچھر کا کاٹنا، جوتے کا تسمہ ٹوٹ جانا، چراغ بجھ جانا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام مواقع پر اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مؤمن کو جو بھی تکلیف پہنچے وہ مصیبت ہے اور اس کے لیے اجر ہے۔ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ میں اِذَا سے اشارہ ہے کہ اِنَّ الْاَجْرَ لِمَنْ صَبَرَ وَقْتَ اِصَابَتِھِمْیعنی اجر اس شخص کے لیے ہے کہ جب تکلیف پہنچے اس وقت صبر کرے جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے: اَلصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الْاُوْلٰی؎ جزیں نیست کہ صبر اوّل مصیبت کے وقت ہے (کیوں کہ دن گزرنے سے تو صبر سب ہی کو آ جاتا ہے) اسی لیے علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے دوسری جگہ رضاء بالقضاء کی تعریف کی ہے اَلرِّضَآءُ وَ ھُوَ سُرُوْرُ الْقَلْبِ بِمُرُوْرِ الْقَضَآءِدل کا مسرو ر ہونا قضا کے ورود کے وقت ،لیکن اس رضا کا نام رضائےطبعی ہے جو غلبۂ اُنس اور غلبۂ شوق میں نصیب ہوتا ہے، جس کا بندہ مکلف نہیں، جس رضا کا درجہ فرض ہے وہ رضائے عقلی ہے۔ ------------------------------