خزائن القرآن |
|
آیت نمبر۲۲ فَالَّذِیۡنَ ہَاجَرُوۡا وَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ وَ اُوۡذُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِیۡ وَ قٰتَلُوۡا وَ قُتِلُوۡا لَاُکَفِّرَنَّ عَنۡہُمۡ سَیِّاٰتِہِمۡ ؎ ترجمہ: سو جن لوگوں نے ترکِ وطن کیا اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور تکلیفیں دیے گئے میری راہ میں اور جہاد کیا اور شہید ہو گئے میں ضرور ان لوگوں کی تمام خطائیں معاف کر دوں گا۔موجودہ دور میں صحا بہ کے اعمالِ منصوصہ کے اختیار کی صور ت ان آیات میں حضرات صحا بہ کے چنداہم اعمال کا ذکر ہے اور ان پر ان کی سیئات کو محو فرمانے اور داخلۂ جنّت کا تاکید کے ساتھ وعدہ ارشاد فرمایا گیا ہے، وہ اعمال حسب ذیل ہیں : ۱) ہجر ت جو صورۃً اور حقیقۃً ہر اعتبار سے کامل تھی یعنی ترکِ وطن بھی کیا اور ترکِ معاصی و خطایابھی کیا۔ حدیثِ پاک ہے:اَلْمُہَاجِرُ مَنْ ہَجَرَ الْخَطَایَا وَالذُّنُوْ بَ؎ ۲) اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ اپنے گھروں سے نکالے گئے ۔ یہ مجاہدہ غیر اختیا ریہ ہے ۔ یعنی کفار کی جانب سے اس قدر تنگ کیے گئے کہ چار و نا چار ترکِ وطن کرنا پڑا اور مجاہدہ غیر اختیاری کو حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی نے مجاہدۂ اختیاریہ سے بعض وجوہات اور بعض حالات میں افضل لکھا ہے ۔ایک تو یہ کہ مجاہدۂ اختیاریہ میں عجب و پندار کا خطرہ ہو تا ہے بر عکس غیر اختیاریہ میں اپنی مجبوری پر نظر ہوتی ہے دوسرے یہ کہ مجاہدۂ اختیاریہ میں اپنے نفس کے ارادہ و اختیار کا دخل ہو تا ہے اور غیر اختیاریہ میں خالص تکوینی اور غیبی تربیت کے اسرار شامل ہو تے ہیں ۔ ۳) وَاُوْذُوْا فِیْ سَبِیْلِیْ اور میر ے را ستے میں اذیت دیے گئے، اس یا ء نے تو تمام اذیتیں لذیذ کر دیں اور اس ایذاء کا مقامِ رفعت واضح فرمادیا کہ جو ایذا کسبِ دنیا کے لیے اور اغراضِ نفسانیہ کے لیے بندہ بر داشت ------------------------------