خزائن القرآن |
|
اختیاری چیز ہے۔ شیطان و نفس کے کہنے پر ڈسٹمپری کا راستہ اختیار نہ کیجیے، راہِ پیغمبر پر چلیے۔ خداتعالیٰ ہم سب کو توفیق دے، صورتیں بدلنے والی ہیں۔ بس چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات ہے ۔ اس چاند سے تعلق کرو جہاں اندھیرا نہیں ہوتا، اس سورج سے تعلق رکھو جو غروب نہیں ہوتا اور وہ اللہ تعالیٰ کی نسبت کے چاند سورج ہیں۔ جس شخص کو حق تعالیٰ نے اپنی نسبت دے دی وہ خالقِ آفتاب سے وابستہ ہے، وہاں سورج غروب نہیں ہوتا، وہاں کبھی اندھیرا نہیں ہوتا اسی لیے اللہ والے ہر وقت مست رہتے ہیں۔ اپنے اللہ کے قرب کے آفتاب سے ہر وقت روشن رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی روشن کر دیتے ہیں بشرطیکہ وہ اپنی زمین پیش کریں۔ کاشت کے لیے زمین بھی تو دیں یعنی نفس کو اصلاح کے لیے کسی اللہ والے کے حوالے کر دیں۔شہید کی تعریف تو نَبیّٖن کا مطلب آپ نے سمجھ لیا اب شُہَدَاءکے معنیٰ بھی سمجھ لیجیے، شہداء وہ لوگ ہیں جن کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر ایسا یقین آیا کہ اللہ کی راہ میں جان دے کر اللہ تعالیٰ کے وجود اور وحدانیت کی گواہی دے گئے۔ اُحد کے دامن میں ستر صحابہ ایک ہی دن میں شہید ہو گئے اور ہر جنازہ بزبانِ حال یہ شعر پڑھ رہا تھا، زبانِ قال سے نہیں، زبانِ حال سے گویا یہ کہہ رہا تھا ؎ اُن کے کوچہ سے لے چل جنازہ مرا جان دی میں نے جن کی خوشی کے لیے یہ شہداء کا طبقہ اسی لیے ہے۔ آج شہادت کا راز بتاتا ہوں۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں خود فرمایا کہ یہ سمندر اور ایسے سات سمندر اگر روشنائی بن جائیں اور سارے عالم کے درخت قلم بن جائیں تو میری عظمتوں کو نہیں لکھ سکتے تب اﷲ تعالیٰ نے اپنے شہیدوں کے خونِ شہادت سے اپنی عظمتوں کی تاریخ لکھوائی ہے اور جنگِ اُحد میں اﷲ تعالیٰ نے آیت نازل کی کہ خبردار! دل چھوٹا مت کرنا، یہ ہم نے شہادت کا کوٹہ پورا کیا ہے ورنہ کافر اعتراض کرتے کہ مُنْعَمْ عَلَیْھِمْ میں شہداء کا وہ طبقہ کہاں ہے جس کا اﷲ نے قرآن میں ذکر کیا ہے۔ اگر ہم نہ چاہتے تو ایک بھی شہید نہیں ہوسکتا تھا لیکن وَ یَتَّخِذَ مِنۡکُمۡ شُہَدَآءَ یہ شکست جوہوئی اگر یہ نہ ہوتی تو ہم تم کو شہادت کا درجہ کیسے دیتے؟ تم کو مرتبۂ شہادت پر فائز کرنے کے لیے یہ سب انتظام ہوا ہے۔ اس راز کو بھی اﷲ تعالیٰ نے ظاہر فرمادیا۔