خزائن القرآن |
|
مادّۂ فجور تقویٰ کا موقوف علیہ ہے میں نے عرض کیا کہ میرے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات ڈالی ہے کہ جس طرح سے بغیر وضو کے نماز نہیں ہو سکتی، بغیر موقوف علیہ پڑھے ہوئے بخاری شریف نہیں مل سکتی اسی طرح یہ مادّۂ نا فرمانی تقویٰ کا موقوف علیہ ہے۔ اگر یہ مادہ نا فرمانی کا نہ ہوتا تو اس کو روکنا کیسے ثابت ہوتا ۔ ہر نہی اپنے منہی عنہ کے وجود اور اس کے ثبوت کے لیے ضروری ہے مثلاً میرے ہاتھ میں تسبیح ہے میں کہتا ہوں کہ بھئی! میرے ہاتھ میں جو تسبیح ہے اس کو مت دیکھنا۔ تو تسبیح کا وجود ضروری ہوا یا نہیں ۔ اگر میرے ہاتھ میں تسبیح نہ ہو اور میں کہوں کہ ہاتھ میں جو تسبیح ہے اس کو مت دیکھنا تو سب کہیں گے کہ غلط بات ہے۔ ہاتھ میں تسبیح ہے ہی نہیں۔تقویٰ کے لیے تقاضائے معصیت کا وجود ضروری ہے تو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ گناہ کے تقاضے کو روکو اور ہماری بات سنو، میرے غلام بن کر رہو، نفس نے تم کو نہیں پیدا کیا، میں نے تم کو پیدا کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ تقاضائے معصیت کا وجود ضروری ہے جب ہی تو روکنے کے لیے فرما رہے ہیں۔ اگر تقاضائے گناہ نہ ہوتے تو تقویٰ کا وجود بھی نہیں ہو سکتا تھا کیوں کہ تقویٰ کے معنیٰ ہیں کہ گناہ کا تقاضا ہو اور پھر اس کو روک کر اس کا غم اُٹھالے۔راہِ حق کے غم کی عظمت اسی غم سے اللہ ملتا ہے مگر افسوس ہے اور اس بات کو درد بھرے دل سے کہتا ہوں کہ ساری دنیا کے غم اُٹھانے کے لیے انسان تیار ہے مگر اللہ کے راستے کے غم سے گھبراتا ہے جب کہ اللہ کے راستے کا غم اتنا معزز غم ہے کہ ساری دنیا کے سلاطین کے تخت و تاج ایک پلڑے میں رکھ دو، ساری دنیا کے لیلیٰ و مجنون کا حسن و عشق ترازو کے اس پلڑے میں رکھ دو، ساری دنیا کی دولت اسی پلڑے میں رکھ دو، دنیا بھر کے شامی کباب اور بریانیوں کی لذّت اسی میں رکھ دو اور ایک پلڑے پر اللہ تعالیٰ کے راستے کا ایک ذرّہ غم رکھ دو تو دنیا بھر کی خوشیاں، دنیا بھر کی لذّتیں، دنیا بھر کے سلاطین کے تخت و تاج کے نشے اس ذرہ غم کی برابری نہیں کر سکتے۔ آہ!علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اﷲ علیہ کیا عمدہ شعر فرماتے ہیں ؎ ترے غم کی جو مجھ کو دولت ملے غمِ دو جہاں سے فراغت ملے