خزائن القرآن |
|
اس طرح مؤمن اور کافر ہر انسان سے جو بھی اچھا عمل یا بُرا عمل صادر ہوتا ہے، وہ زمین ہی پر ہوتا ہے۔ آج یہ زمین بے زبان ہے، لیکن حشر کے دن قادرِ مطلق کے حکم سے زمین میں قوتِ گو یائی آجائے گی، یعنی ساکت ناطق ہوجائے گی اور چھوٹے بڑے، اچھے بُرے، ہر ہر واقعہ کی پوری پوری شہادت پیش کرے گی۔ گویا آج یہ زمین زندگی کے تمام اقوال و افعال اور حرکات و سکنات کو جوں کا توں ٹیپ کر رہی ہے کل ٹیپ کا بند کھول دیا جائے گا اور پورا ٹیپ کیا ہوا مواد سامنے آ جائے گا مثلاً کہے گی کہ فلاں شخص نے نماز پڑھی تھی، فلاں فلاں کی مصیبت میں کام آیا تھا، فلاں ہر کارِخیر میں آگے بڑھ کر حصہ لیتا تھا، فلاں اللہ کے سامنے سرِ نیاز خم نہ کرتا تھا اور اس کے ہر حکم سے سرتابی کرتا تھا، فلاں نے چوری کی تھی، ظلم کیا تھا، خونِ ناحق بہایا تھا۔ ان حقائق کو قرآن مجید کی ان آیات میں بیان کیا گیا ہے۔ زمین کی اس عظیم شہادت کے پیشِ نظر شیخ محی الدین ابن عربی نے ایک بڑی حکیمانہ بات ارشاد فرمائی، فرماتے ہیں کہ جس زمین پر انسان سے کسی گناہ کا صدور ہو جائے تو اسے چاہیے کہ اس جگہ کوئی نیک کام بھی کر دے تاکہ وہ زمین جو حشر کے دن اس کے گناہوں کی گواہی دے، ساتھ ہی نیکی کی شہادت بھی پیش کرے اور معاملہ برابر ہوجائے بلکہ نیکی پر تو وعدہ ایک پر دس دینے کا ہے۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ جب آپ بیت المال کا سارا مال اہلِ حقوق میں تقسیم فرما دیتے اور بیت المال خالی ہو جاتا تو اس میں دو رکعت نماز ادا کرتے اور پھر فرماتے: تجھے قیامت میں شہادت دینی ہو گی کہ میں نے تجھ کو حق کے ساتھ بھرا اور حق ہی کے ساتھ خالی کردیا۔ اس لیے زمین پر رہتے ہوئے ہمیں غافل نہیں رہنا چاہیے بلکہ ہم ہوشیار اور چوکنا رہیں کہ ایک دن وہ آنے والا ہے جس دن زمین ہمارے تمام اعمال اور حرکات و سکنات کی ٹھیک ٹھیک گواہی اللہ کے حضور پیش کرے گی، بڑے خوش نصیب ہوں گے وہ لوگ جن کے حق میں زمین کی گواہی نجات کا ذریعہ ہے۔آیت نمبر ۱۱۰ قُلۡ ہُوَ اللہُ اَحَدٌ ۚ﴿۱﴾اَللہُ الصَّمَدُ ۚ﴿۲﴾ لَمۡ یَلِدۡ ۬ۙ وَ لَمۡ یُوۡلَدۡ ۙ﴿۳﴾ وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ ٪﴿۴﴾؎ ------------------------------