خزائن القرآن |
|
حضرت شاہ عبدالغنی صاحب کی حکمتِ دینیہ میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب سے ایک بد عتی مرید ہوا رام پور میں، اس نے پوچھا کہ میں عہد نامہ، درود تاج، درود لکھی یہ سب پڑھتا ہوں، حضرت نے اس سے پوچھا کہ کتنی دیر تک پڑھتے ہو۔ کہا کہ پچیس منٹ، حضرت نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بنایا ہوا درود زیادہ بہتر ہے یا علماء کا؟ اس نے کہا کہ علماء تو غلام ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو ہمارے آقا ہیں۔ فرمایا کہ التحیات کے بعد جودرود شریف ہے یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عطا فرمودہ ہے۔ لہٰذا تم اس درود کو پچیس منٹ پڑھ لیا کرو۔ اس بہانے سے اصلاح فرما دی۔ اگر کہہ دیتے کہ یہ سب حرام ہے نا جائز ہے، یہ ہے وہ ہے تو وہ فوراً کہتا کہ افوہ توبہ! توبہ! مولانا ہمیں کیا پتا تھا کہ تم کیا ہو لیکن اللہ تعالیٰ اللہ والوں کو حکمت دیتا ہے، محبت سے لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتے ہیں اور محبت ملتی ہے اہلِ محبت کی صحبت سے ۔حکمت کی چوتھی تفسیر مَا تُکْمَلُ بِہِ النُّفُوْسُ مِنَ الْاَحْکَامِ وَ الْمَعَارِفِ یہ فعل مضارع مجہول ہے، وہ علوم کہ جن سے انسانوں کے نفس اللہ والے بن جاتے ہیں مِنَ الْاَحْکَامِ وَ الْمَعَارِفِ ایسے احکام ایسے علوم و معارف بیان کیے جائیں جس سے انسان کا نفس مجلّٰی، مصفّٰی، مزکّٰی ہوکر اللہ والا بن جائے وہ سب حکمت میں داخل ہیں مَا تُکْمَلُ بِہِ النُّفُوْسُ مضارع مجہول ، یہ مفعول ما لم یسم فاعلہ ہو کر مرفوع ہو رہا ہے، اس پر پیش ہے مَا تُکْمَلُ بِہِ النُّفُوْسُ مِنَ الْاَحْکَامِ وَ الْمَعَارِفِ میں مِنْ بیانیہ ہے کہ وہ کیا چیز ہے جس سے نفوس پاک ہوتے ہیں۔ اللہ کے احکام اور معارف کو محبت و عظمت کے ساتھ بیان کرو تاکہ معرفت حاصل ہو۔ معرفت سے محبت پیدا ہوگی اور محبت سے فرماں برداری کی توفیق ہوگی۔اگر معرفت اور پہچان نہیں ہے تو پھر محبت بھی نہیں ہو گی۔ ناظم آباد میں میرے پاس دو شیخ الحدیث آئے ۔ دونوں پاس بیٹھے ہوئے تھے اور دونوں ساتھ پڑھے ہوئے تھے مگر پہچان نہیں تھی کیوں کہ چالیس سال کے بعد ملے تھے۔ دونوں اجنبی کی طرح میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے، میں نے تعارف کرایا کہ یہ خیر المدارس کے محدث ہیں اور یہ ٹنڈواللہ یار کے محدث ہیں،یہ سننا تھا کہ دونوں کھڑے ہو گئے اور ایک دوسرے کے سینہ سے لپٹ گئے کہ ارے! ہم دونوں تو ساتھ پڑھتے تھے تو محبت کب ہوئی جب معرفت ہوئی ورنہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے اجنبی کی طرح۔ ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے لیکن محبت کا جوش نہیں ہو رہا تھا۔ عدمِ معرفت سے عدم محبت تھی، جب میں نے تعارف کرایا تو دونوں