خزائن القرآن |
|
حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو ایک عرصہ تک یہ اِشکال رہا کہ جو مقام حق تعالیٰ شانہٗ بعد مجاہدات کے سالک کو عطا فرماتے ہیں وہ اس پر بھی قادر ہیں کہ بدونِ مجاہدہ ہی وہ مقام عطا فرما دیں پھر ان کی رحمت مجاہدہ کی تکلیف کو اپنے بندوں کے لیے کیوں کر گوارا کرتی ہے۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک دن خود بخود قلب میں اس اِشکال کا حل وارد ہوا وہ یہ کہ بدونِ مجاہدہ اگر تمام مقامات سالک کو عطا فرما دیے جاتے تو نعمت کی قدر نہ ہوتی اور قدرِ نعمت نہ ہوتی تو نعمت کا بقا اور اس کی ترقی نہ ہوتی جیسا کہ شکر پر نعمت کی زیادتی منصوص ہے اسی طرح ا س کے عکس پرسلب کا خطرہ تھا۔ احقر عرض کرتا ہے کہ حزن و اضطرار میں گر یہ وزاری اور انابت کی جس درجہ توفیق ہوتی ہے راحت وعافیت میں عادتاً یہ توفیق کوشش گر یہ اور نقل بکا سے بھی اس درجہ نہیں ہوتی۔ لیکن مصیبت کو طلب نہ کرنا چاہیے۔ طلبِ عافیت مطلوب ہے لیکن من جانب اللہ اگر کوئی رنج و مصیبت پیش آ جائے تو گھبرانا نہ چاہیے اور بے صبری نہ کرنا چاہیے بلکہ سمجھنا چاہیے کہ حق تعالیٰ اپنا بنانے کا انتظام فرما رہے ہیں اور درجات بلند فرما رہے ہیں، رنج و الم بھی بندے کے لیے نعمت ہے کہ اس اضطرار میں دل سے دعا نکلتی ہے، سجدہ گاہ آنسوؤں سے تر ہوتی ہے اور لذّتِ مناجات عطا ہوتی ہے جو خود ایک عظیم نعمت ہے۔آیت نمبر ۳۸ یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ حَسۡبُکَ اللہُ وَ مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ؎ ترجمہ: اے نبی!آپ کے لیے اﷲ کافی ہے اور جن مؤمنین نے آپ کا اتباع کیا ہے وہ کافی ہیں۔ صحابہ میں سب سے پہلے جن کو امیر المؤمنین کا لقب ملا ہے وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں، جن کے اسلام لانے سے آسمانوں پر خوشیاں منائی گئیں اور یہ شرف ملاکہ جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور فرمایا: یَا مُحَمَّدُ اِسْتَبْشَرَ اَھْلُ السَّمَاءِبِاِسْلَا مِ عُمَرَ؎ آج عمر کے اسلام لانے سے آسمان پر فرشتے خوشیاں منا رہے ہیں۔ آپ سوچئے کہ کیا درجہ تھا ان حضرات کا ------------------------------