خزائن القرآن |
|
آیت نمبر۱۷ وَ الۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ وَ الۡعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ ؕ وَ اللہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۱۳۴﴾ۚ ؎ ترجمہ: اور غصے کے ضبط کرنے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں اور اﷲ تعالیٰ ایسے نیکوکاروں کو محبوب رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیتِ کریمہ میں اپنے خاص بندوں کی تین علامتیں بیان کی ہیں: ۱)جو لوگ کہ غصہ کو پی جاتے ہیں۔۲)ہمارے بندوں کی خطاؤں کو معاف کر دیتے ہیں اور ۳)صرف معاف ہی نہیں کرتے بلکہ ان پر کچھ احسان بھی کر دیتے ہیں تو ایسوں کو اللہ تعالیٰ محبوب رکھتا ہے۔ اور اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے انسان کی ایک خطر ناک بیماری کا علاج بھی ان آیات میں بیان فرمایا ہے۔ وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَاللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ وہ بندے جو غصہ کو پی جاتے ہیں۔ وَالْکٰظِمِیْنَ کے معنی ہیں اَلَّذِیْنَ یَکْظِمُوْنَ الْغَیْظَ اسمِ فاعل پر جب الف لام داخل ہوتا ہے تو معنی میں اسمِ موصول کے ہوجاتا ہے تو معنی یہ ہوئے کہ وہ لوگ جو غصہ کو ضبط کر لیتے ہیں۔ غصہ آنا بُرا نہیں ہے غصہ کا بے جا استعمال برا ہے۔ اگر غصہ کا مادہ بُرا ہوتا تو قرآن میں وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ کے بجائے العَادِمِیْنَ الْغَیْظَ نازل ہوتا۔ جس کے معنی ہوتے کہ وہ لوگ جو غصہ کو معدوم و مفقود و فنا کر دیتے ہیں۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے العَادِمِیْنَ الْغَیْظَ نازل نہیں فرمایا اس لیے کہ غصہ کا عدم مراد نہیں ہے اگر غصہ معدوم ہو جائے تو کفار سے مقابلہ کے وقت جہاد کیسے کرے گا؟ غصہ رہے، وہ تو اللہ نے رکھا ہے لیکن غصہ کے موقع پر اس کا استعمال کرے، مثلاً جہاد ہو رہاہے اب خدا کے دشمنوں کے خلاف غصہ استعمال کرو، اس وقت اگر کوئی کہے کہ یہ حقیر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہے تو اس وقت یہ تواضع حرام ہے بلکہ اس وقت تو کہو ھَلْ مِنْ مُّبَارِزٍہے کوئی جو میرے مقابلے میں آئے، لیکن غصہ جب اپنے نفس کے لیے ہو اس وقت کے لیے ہے وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ یہ ہیں مردانِ خدا جو غصہ کو پی جاتے ہیں، ضبط کر لیتے ہیں۔ ------------------------------