خزائن القرآن |
|
چاہیے کہ اس حی و قیوم پر فدا ہو تاکہ وہ زندہ حقیقی ہم مرنے والوں کو، حادِث و فانی کو سنبھالے رہے۔ زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی جتنے مراحل ہیں اللہ کا ساتھ ہی ہمارا بیڑا پار کرے گا۔ وہ زندگی میں بیڑا پار کرنے والا ہے، خاتمہ کے وقت ایمان پر موت دینے والا وہی ہے، قبر کے عذاب سے بچانے والا وہی ہے، عالمِ برزخ میں بھی ساتھ دینے والا وہی ہے، میدانِ محشر میں بخشنے والا بھی وہی ہے اور جنّت میں اپنا دیدار کرانے والا بھی وہی ہے کہ اس کے دیدار کے وقت جنّتی جنّت کو اور جنّت کی نعمتوں کو بھول جائیں گے۔ ہمارے مالک نے کہاں ہمارا ساتھ چھوڑا ہے، کوئی مرحلہ اور کوئی مقام ایسا نہیں جہاں اللہ تعالیٰ نے کہا ہو کہ یہاں ہم تمہارے ساتھ نہیں رہیں گے۔ لہٰذا محبت کے قابل صرف ہمارا مولیٰ ہے۔ پھرایسے مولیٰ کو چھوڑ کر کہاں جاتے ہو۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اے اللہ! ہمارے سینے تو اس قابل نہیں ہیں لیکن ہماری نظر اپنے سینوں پر نہیں ہے، آپ کے کرم، آپ کی رحمت اور آپ کی عطا پر ہے، بدونِ استحقاق، بدونِ صلاحیت محض اپنے کرم سے ہمیں صف اولیائے صدیقین میں شامل فرما لیجیے تاکہ زندگی میں بھی ہمیں آپ کی معیتِ خاصہ حاصل ہو اور گناہ کر کے ہم کبھی آپ سے دور نہ ہوں اور مرنے کے بعد بھی آپ کے کرم سے مشرف ہوں جو آپ کے اولیاء کا نصیبہ ہے۔آیت نمبر۹۶ وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ؎ ترجمہ: دنیوی زندگانی محض دھوکے کا سبب ہے۔دنیا دار الغرور کیوں ہے؟ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں اس دنیا کو دارالغرور کا لقب دیا ہے کہ یہ دنیا دھوکے کا گھر ہے، متاع الغرور ہے، دھوکے کی پونجی ہے۔ دنیا میں اگر کسی بلڈنگ پر لکھ دیا جائے کہ دھوکے کا گھر تو آدمی وہاں جا کر گھبرائے گا اور وہاں کی ہر چیز کو دھوکا سمجھے گا۔ معلوم ہوا کہ جو دھوکے کا گھر ہے تو اس گھر میں جو چیزیں ہیں فیہ ما فیہ جو کچھ بھی اس میں ہے ان سب میں دھوکا ہوتا ہے تو اس خالقِ کائنات نے جب اس کائنات پر دارالغرور کا لیبل لگا دیا کہ میں نے یہ کائنات پیدا کی ہے لیکن اس سے دل نہ لگانا یہ دھوکے کا گھر ہے۔ تو جب دنیا ------------------------------