خزائن القرآن |
|
رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ جب اونٹوں پر شہیدوں کی لاشیں آ رہی تھیں تو مدینہ کی خواتین صحابیات پوچھتی تھیں کہ یہ کس کی لاشیں ہیں؟ جب ان کو معلوم ہوا کہ یہ شہداء کی لاشیں ہیں تو ان کے منہ سے نکل گیا وَ یَتَّخِذَ مِنۡکُمُ الشُّہَدَآءَ کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس امت میں شہید بھی پیدا کر دے، اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ جملہ پسند فرمایا اور قرآن پاک میں نازل فرما دیا لیکن الشُّھَدَآءَ سے الف لام تخصیص کا ہٹادیا اور آیت یوں نازل فرمائی وَ یَتَّخِذَ مِنۡکُمۡ شُہَدَآءَ ، شُھَدَآءَ نکرہ نازل کیا کیوں کہ اگر الشُّھَدَآء نازل ہوتا تو پھر صرف اُحد کے شہید ہی شہید کہلاتے، شہادت کے لیے وہی خاص ہوجاتے کیوں کہ الف لام تخصیص کے لیے آتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کو قیامت تک شہادت کا دروازہ کھولنا تھا اس لیے شُھَدَآءَ نازل فرمایا تاکہ قیامت تک شہید ہوتے رہیں اور قیامت تک اس امت کو شہیدوں کی ایک جماعت مل جائے۔ ان شہیدوں نے اپنے جان دے کر ہم کو وفاداری کا سبق دے دیا۔ جب اللہ تعالیٰ کبھی مجھے اُحد کے دامن میں حاضری کا شرف دیتا ہے تو میں ان شہیدوں کے صدقہ میں ایک دعا مانگتا ہوں کہ اے اللہ! ان شہداء نے آپ پر جان دے دی، اپنا خونِ شہادت پیش کر دیا اور ہم سے اتنا بھی نہیں ہوتا کہ آپ کے لیے اپنی نظریں بچا کر اپنے دل کی آرزوؤں کا خون کرلیں لہٰذا ان کی جانبازی کے صدقہ میں ہم سب کو بھی اپنی ذاتِ پاک پر جان کو فدا کرنے کی اور خونِ آرزو کرنے کی توفیق اور ہمت عطا فرما دیجیے۔آیت نمبر۲۰ اِنَّمَا اسۡتَزَلَّہُمُ الشَّیۡطٰنُ بِبَعۡضِ مَا کَسَبُوۡا ؎ ترجمہ: ان کو شیطان نے لغزش دے دی ان کے بعض اعمال کے سبب سے۔ اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کا تذکرہ کیا ہے یعنی شیطان تم کو کب بہکاتا ہے، تمہارے اوپر کب قدرت پاتا ہے؟ جب تم کوئی گناہ کرتے ہو بِبَعۡضِ مَا کَسَبُوۡا سے معلوم ہوا کہ ایک گناہ سے دوسرا گناہ پیدا ہوتا ہے جس طرح ایک طاعت سے دوسری طاعت کی توفیق بڑھتی جاتی ہے۔ جب بندہ گناہ کرتا ہے، بُرے اعمال کرتا ہے تو قلب میں ظلمت پیدا ہوتی ہے، پھر شیطان اس اندھیرے میں قبضہ جما لیتا ہے ورنہ شیطان کی طاقت نہیں ہے کہ وہ مؤمن کے دل پر قبضہ کر لے لَامَجَالَ لَہٗ ------------------------------