خزائن القرآن |
|
لَا تَثۡرِیۡبَ عَلَیۡکُمُ الۡیَوۡمَ سے ایک اہم مسئلۂ سلوک کا استنباط اس پر حکیم الامت مجدد الملت مولانا تھانوی نے ایک مسئلۂ تصوف بیان فرمایا کہ جو اللہ والے ہوتے ہیں وہ مخلوق کے جھگڑوں میں نہیں پڑتے تاکہ اپنے وقت کو خالق کی عبادت میں مشغول رکھیں لہٰذا ان کی نظر عرشِ اعظم پر ہوتی ہے اَلَّذِیْ یَنْظُرُ اِلٰی مَجَارِی الْقَضَآءِوَلَا یُفْنِیْ اَ یَّامَہٗ بِمُخَاصَمَۃِ النَّاسِ اولیاء اللہ وہ ہیں جو فیصلہ جاری ہونے کی جگہ پر یعنی عرشِ اعظم پر نظر رکھتے ہیں، وہ اپنی زندگی کے ایام کو مخلوق کے جھگڑوں میں ضایع نہیں کرتے۔ مخلوق کے جھگڑوں میں جو پھنسا اس کا دل اللہ کے قابل کہاں رہتا ہے۔ یہ بیان القرآن کے حاشیہ مسائل السلوک کی عربی عبارت نقل کر رہا ہوں اَلَّذِیْ یَنْظُرُ اِلٰی مَجَارِی الْقَضَآءِوَلَا یُفْنِیْ اَیَّامَہٗ بِمُخَاصَمَۃِ النَّاسِ بَلْ یَقُوْلُ لَا تَثۡرِیۡبَ عَلَیۡکُمُ الۡیَوۡمَجس کی نظر اللہ پر ہوتی ہے وہ مخلوق کے جھگڑوں میں اپنے اوقات ضایع نہیں کرتا بلکہ کہتا ہے کہ جاؤ سب معاف کر دیا اور اپنا دل بچا کر اللہ کو پیش کرتا ہے۔آیت نمبر۵۲ قَالَ اِنَّ ہٰۤؤُلَآءِ ضَیۡفِیۡ فَلَا تَفۡضَحُوۡنِ ﴿ۙ۶۸﴾ ؎ ترجمہ: لوط (علیہ السلام) نے فرمایاکہ یہ لوگ میرے مہمان ہیں سومجھ کو رسوا مت کرو۔حرمین شریفین میں حفاظتِ نظر کے متعلق علمِ عظیم نا محرموں پر نظر کرنا سارے عالم میں حرام ہے لیکن عالم حرمین شریفین میں اس کی حرمت اشد ہے۔ وجہ کیا ہے؟ کہ یہاں آنے والے اور آنے والیاں اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں اور ہر میزبان اپنے مہمانوں کی ذلت کو اپنی ذلت سمجھتا ہے جیسے حضرت لوط علیہ السلام نے فرمایا اس قوم کو جوفرشتوں کو حسین لڑکے سمجھ کر ان کی طرف بُرا ارادہ کر رہی تھی اور اس وقت تک حضرت لوط علیہ السلام کو بھی علم نہیں تھا کہ یہ فرشتے ہیں لہٰذا انہوں نے فرمایا کہ اِنَّ ہٰۤؤُلَآءِ ضَیۡفِیۡ فَلَا تَفۡضَحُوۡنِاے نالائقو! یہ میرے مہمان ہیں مجھے رُسوا نہ کرو۔ معلوم ہوا کہ ------------------------------