خزائن القرآن |
|
کہ پیالے پر ہنس رہے ہو یا کمہار پر۔ پیالہ پر ہنسنا پیالہ بنانے والے پر ہنسناہے، کسی کی بنائی ہوئی چیز کا مذاق اُڑانا گویا کہ بنانے والے کا مذاق اُڑاناہے۔ اس آیت کے ذیل میں مُجَدِّدِ زمانہ حکیم الامت کا مذکورہ بالا عمل ہماری تائید کرتاہے۔ ہر انسان خواہ کسی رنگ کا ہو اور کسی زبان کا ہو اس میں ولی اللہ بننے کی صلاحیت موجود ہے، ایمان لے آئے اور تقویٰ اختیار کرے ولی اللہ ہوگیا لہٰذاعقلاً بھی کسی کو حقیر سمجھنا جائز نہیں۔ لیکن زبانوں کے بارے میں غیر شعوری طور پر شیطان حقارت ڈال دیتاہے۔ اس کا خاص دھیان رکھنا چاہیے کہ کسی کی حقارت دل میں نہ آنے پائے۔ مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ نہ کوئی راہ پاجائے نہ کوئی غیر آجائے حریمِ دل کا احمد اپنے ہر دم پاسباں رہناآیت نمبر ۶۹ وَ لَوۡ اَنَّ مَا فِی الۡاَرۡضِ مِنۡ شَجَرَۃٍ اَقۡلَامٌ وَّ الۡبَحۡرُ یَمُدُّہٗ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ سَبۡعَۃُ اَبۡحُرٍ مَّا نَفِدَتۡ کَلِمٰتُ اللہِ؎ ترجمہ: اور جتنے درخت زمین بھر میں ہیں اگر وہ سب قلم بن جاویں اوریہ جو سمندر ہے اس کے علاوہ سات سمندر اور ہو جاویں تو اﷲ تعالیٰ کی باتیں ختم نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر ساری دنیا کے درخت قلم بن جاتے اور ساری دنیا کے سمندر اور اس سمندر جیسے سات اور سمندر روشنائی بن جاتے تو بھی میری عظمت اور میری صفات کو لکھنے کے لیے نا کافی ہو جاتے لہٰذا جب سارے عالم کے قلم اور سات سمندروں کی روشنائی اللہ تعالیٰ کی عظمتوں کے لکھنے کے لیے ناکافی ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے ایک طبقہ شہداء کا پیدا فرمایا جس کے خونِ شہادت سے اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمتوں کی اور اپنی محبت کی تاریخ لکھوا دی اور ان کا اس کام کے لیے انتخاب فرمایا لِیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُھَدَآ ءَ َکافروں کی کیا مجال تھی کہ ------------------------------