خزائن القرآن |
|
۹)… وَالْفَھْمُ فِیْ کِتَابِ اللہِ کتاب اللہ کی فہم۔ ۱۰)… صُحْبَۃُ الصّٰلِحِیْنَ اللہ والوں کی صحبت۔فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً کی تفسیر اب حسنہ کی سات تفاسیرروح المعانیسے پیش کرتا ہوں رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً یعنی اے ہمارے رب! دنیا میں ہمیں بھلائیاں عطا فرمائیے۔ حسنہ سے کیا مراد ہے؟ ۱)اَلْمَرْأَۃُ الصَّالِحَۃُ نیک بیوی۔ ۲)اَ لْاَوْلَادُ الْاَبْرَارُ نیک بچے، لائق اولاد وہ ہے جو ربّا کا بھی لائق ہو اور ابّا کا بھی لائق ہو۔ یہ نہیں کہ ابّا کی ٹانگ دباتا ہے لیکن نہ نماز پڑھتا ہے نہ روزہ رکھتا ہے۔ یہ نالائق ہے، لائق وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کا بھی فرماں بردار ہو۔ ۳)اَلْعِلْمُ وَالْعِبَادَۃُ دین کا علم اور اس پر عمل یعنی توفیقِ عبادت بھی حسنہ ہے، غیر عالم اس سے محروم ہے، علمِ دین سیکھو چاہے اردو کتاب سے مثلاً بہشتی زیور سے سیکھو یا علماء سے پوچھ پوچھ کر حاصل کرو۔ ۴)وَالْفَھْمُ فِیْ کِتَابِ اللہِ یعنی اَلْفِقْہُ فِی الدِّیْنِ دین کی سمجھ۔ بعض میں علمِ دین تو ہے لیکن اس کی سمجھ نہیں ہے، اس کا صحیح استعمال نہیں کرتا۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ہتھیار تو بہت عمدہ منگوالیا پر چلانا نہیں جانتا۔ علمِ دین کو صحیح موقع پر استعمال کرنا اور اللہ کے لیے استعمال کرنا اور اس کو پیٹ پالنے کا ذریعہ نہ بنانا یہ ہے تفقہ فی الدین۔ تفقہ فی الدین کی ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ سرورِ عالم صلی اللہ علیہوسلم خطبہ کھڑے ہو کر دیتے تھے یا بیٹھ کر؟ تو آپ نے فرمایا کہ کیا تم اس آیت کو نہیں پڑھتے وَ تَرَکُوۡکَ قَآئِمًا قحط کی وجہ سے مدینہ میں غلّے کی سخت کمی تھی۔ بعض صحابہ جن کا اسلام ابھی نیا تھا، جن کی ابھی تربیت مکمل نہیں ہوئی تھی غلہ کے اونٹوں کو دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ خطبہ میں تنہا چھوڑ کر چلے گئے۔ اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:وَ تَرَکُوۡکَ قَآئِمًا اور آپ کو کھڑا ہوا تنہا چھوڑ دیا۔ حضر ت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ آیت دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ کھڑے ہو کر دیتے تھے۔ تفسیر روح المعانی میں ہے کہ دس بارہ صحابہ رہ گئے تھے۔ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر یہ دس بارہ صحابہ نہ ہوتے تو نبی کے ساتھ بے ادبی کی وجہ سے مدینہ پر آگ برس جاتی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے سب کو معاف کر دیا اور صحابہ سے راضی ہو گئے