خزائن القرآن |
|
اگلے شیخ کے ہاتھ پر ہے یہاں تک کہ یہ ہاتھ واسطہ درواسطہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے دستِ مبارک تک پہنچتا ہے اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاتھ کو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں یَدُ اللہِ فَوۡقَ اَیۡدِیۡہِمۡ نبی کا ہاتھ میرا ہاتھ ہے تو جس کو اللہ سے مصافحہ کرناہو، زمین والے کو آسمان والے سے مصافحہ کرنا ہو تو وہ کسی راکٹ سے اللہ تعالیٰ تک نہیں جاسکتا لیکن اگر کسی اللہ والے کا مرید ہو گیا تو اس کا ہاتھ واسطہ در واسطہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے دستِ مبارک تک پہنچ گیا اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے دستِ مبارک کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے نبی کے ہاتھ کو نبی کا ہاتھ مت سمجھو یہ یَدُ اللہِ ہے۔ سچےاللہ والوں سے بیعت کا یہ راستہ اتنا پیارا ہے کہ دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں۔ اللہ سے مصافحہ کا کوئی اور راستہ مجھے دلائل سے بتا دو۔ میں تو دلیل پیش کر رہا ہوں۔آیت نمبر۸۶ سِیۡمَاہُمۡ فِیۡ وُجُوۡہِہِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ؎ ترجمہ: ان کے آثار بوجہ تاثیرِ سجدہ کے ان کے چہروں پر نمایاں ہیں۔سِیْمَا کی تفسیر میرے شیخ حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ پر علوم و ارد ہوتے تھے۔ حضرت کو خاص طور سے آخر عمر میں عبادت و تلاوت ہی سے فرصت نہیں ملتی تھی کہ کوئی کتاب دیکھیں۔ ایک دفعہ فرمایا کہ سِیْمَا کی تفسیر کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ صحابۂ کرام کے چہروں پر راتوں کی عبادتوں کا ایک خاص نور ہے ، پھر فرمایا کہ اخترؔ! یہ نور کیوں ہے؟ بات یہ ہے کہ راتوں کی عبادت سے ان کا قلب انوار سے بھر کر چھلکنے لگتا ہے تو چہرے پر جھلکنے لگتا ہے۔ آہ! میرے شیخ نے یہ تفسیر بلا دیکھے فرمائی کہ جب صحابہ کی خلوتوں کی عبادات سے ان کے دل میں نور بھر جاتا ہے تو جیسے پیالہ بھر جاتا ہے تو چھلک جاتا ہے اسی طرح جب صحابہ کا دل نور سے بھر جاتا ہے تو چھلکنے لگتا ہے اور پھر چہروں سے جھلکنے لگتا ہے اور آنکھوں سے ٹپکنے لگتا ہے۔ یہ بات میں نے اپنے شیخ سے پھولپور میں سنی تھی مگر جب یہاں تفسیر روح المعانی دیکھی تو اس میں بھی بعینہٖ وہی مضمون تھا جو میرے شیخ نے بغیر روح المعانی دیکھے فرمایا تھا کہ سِیْمَا کیا ہے؟ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ------------------------------