خزائن القرآن |
|
آیت نمبر۴۹ وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مُوۡسٰی بِاٰیٰتِنَاۤ اَنۡ اَخۡرِجۡ قَوۡمَکَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ؎ ترجمہ: اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو (کفر کی) تاریکیوں سے (ایمان کی) روشنی کی طرف لاؤ۔ جن درختوں کا مالی ہوتا ہے وہ درخت نہایت موزوں، خوبصورت اور سبک ہوتے ہیں کیوں کہ بے ہنگم شاخوں کو مالی اور باغبان کاٹتا رہتا ہے، اسی طرح جو شیخ سے اپنی اصلاحِ نفس کا تعلق رکھتے ہیں ان کے اخلاق واعمال نہایت معتدل اور پیارے ہوتے ہیں کہ جو اُن کو دیکھتا ہے ان کے اخلاقِ حمیدہ سے متأثر ہوتا ہے لیکن حقیقی مزکی اورمصلح اللہ تعالیٰ ہیں مگر عادۃ اللہ یہی ہے کہ تزکیہ کا دروازہ اور ظاہری وسیلہ رجالُ اللہ ہیں۔ اسی لیے قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مُوۡسٰی بِاٰیٰتِنَاۤ اَنۡ اَخۡرِجۡ قَوۡمَکَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِحضرت حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر بیانُ القرآن کے حاشیہ مسائل السلوک میں تحریر فرماتے ہیں: اِسْنَادُ الْاِخْرَاجِ اِلَی النَّبِیِّ مَعَ کَوْنِ الْمُخْرِجِ الْحَقِیْقِیِّ ھُوَ اللہُ تَعَالٰی ھٰذَا اَقْوٰی دَلِیْلٍ عَلٰی اَنَّ لِلشَّیْخِ مَدْخَلًا عَظِیْمًا فِیْ تَکْمِیْلِ الْمُرِیْدِ؎ ظلمتوں سے نور کی طرف اخراج کی نسبت نبی کی طرف کرنا باوجود یہ کہ مُخرجِ حقیقی تو اللہ تعالیٰ ہی ہیں اس میں نہایت قوی دلیل ہے کہ شیخ کو مرید کی تکمیلِ اصلاح میں زبردست دخل ہے۔ بس اہل اللہ دروازۂ تزکیہ ہیں، وسیلۂ تزکیہ ہیں، اصل مزکی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جیسا کہ دوسری آیت میں ارشاد ہے: اَللہُ وَلِیُّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۙ یُخۡرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ؎ ------------------------------