خزائن القرآن |
|
ختم ہو جاتا ہے۔ اس لیے گناہ پر تھوڑی سی بھی جرأت مت کرو۔ جس طرح وَ رِضۡوَانٌ مِّنَ اللہِ اَکۡبَرُ؎ میں تنوین تقلیل کے لیے ہے کہ اللہ کا تھوڑا سا راضی ہو جانا اَکْبَرُ مِنْ کُلِّ شَیْءٍ ہے، اَکْبَرُ مِنْ کُلِّ الْعَالَمِ ہے، سارے جہانوں سے ان کی رضا مندی بڑی ہے، اسی طرح ان کی تھوڑی سی ناراضگی بھی عظیم الشان ہے، اس سے بڑھ کر کوئی مصیبت، کوئی پریشانی نہیں۔ مولانا فرماتے ہیں کہ باوجود اتنی نزدیکی کے کہ آپ ہماری جان سے بھی زیادہ قریب ہیں پھر بھی ہم اپنے نفس کی غلامی اور نفس کی شہوتوں کی اتباع سے آپ سے دور ہیں ؏ در چنیں تاریکیے بفرست نور اپنے نفس کی غلامی اور نفس کے غلبہ سے ہم تاریکی میں ہیں۔ اے اللہ! آپ کے آفتابِ نور اور ہمارے قلب کے درمیان ہمارے نفس کا گولا آ گیا جس سے ہمارا قلب آپ کے نور سے محروم ہو کر بالکل تاریک ہو گیا۔ جس پر نفس غالب آ جاتا ہے وہ گناہ پر جری ہو جاتا ہے، ایسے شخص کے قلب کی دنیامیں اس وقت ایک ذرّہ نور نہیں ہوتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ سے پناہ چاہتا ہوں اپنے لیے اپنی اولاد کے لیے اور اپنے دوستوں اور رفیقوں کے لیے کہ خدا تعالیٰ ہم سب کو ایک سانس بھی اپنی ناراضگی اور نافرمانی میں نہ جینے دے کیوں کہ حکیم الامت مولانا تھانوی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مؤمن کی سب سے بُری گھڑی وہ ہے کہ جس گھڑی وہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے، مؤمن کی وہ سانس نہایت ہی منحوس اور لعنتی ہے جس سانس میں وہ اللہ تعالیٰ کا غضب خریدتا ہے اور وہ سانس نہایت مبارک ہے جس سانس میں وہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرتا ہے۔ پس اے اللہ! ہم اپنے گناہوں سے، اپنی نالائقیوں سے اور اپنی بداعمالیوں سے انتہائی شدید تاریکی میں ہیں اور آپ سے دور ہیں لہٰذا آپ ہمارے دل کی تاریک دنیا میں اپنی رحمت سے نور بھیج دیجیے، گناہوں کے اندھیروں میں تقویٰ کا نور بھیج دیجیے۔آیت نمبر۹۱ قَالُوۡۤا اِنَّاۤ اُرۡسِلۡنَاۤ اِلٰی قَوۡمٍ مُّجۡرِمِیۡنَ ﴿ۙ۳۲﴾ ؎ ------------------------------