خزائن القرآن |
|
یعنی اللہ تعالیٰ ان کا معین ہے اور ان کا محب ہے اور ان کے امور کا متولی ہے۔ اور نور کو مفرد بیان فرمایا بوجہ اس کے کہ حق ایک ہوتا ہے اور ظلمات کو جمع کے صیغہ سے بیان فرمایا بوجہ اس کے کہ گمراہی کے انواع متعدد ہوتے ہیں۔استقامت کی دعا حدیث سے عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْھَا قَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَثِیْرًامَّا یَدْعُوْ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ؎ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے اے دلوں کے بدلنے والے! ہمارے دل کو اپنے دین پر قائم رکھیے۔میں نے عرض کیا کہ آپ اکثر یہ دعا کیوں مانگا کرتے ہیں؟ ارشاد فرمایا کہ: لَیْسَ مِنْ قَلْبٍ اِلَّا وَ ھُوَ بَیْنَ اِصْبَعَیْنِ مِنْ اَصَابِعِ الرَّحْمٰنِ اِنْ شَاءَ اَنْ یُّقِیْمَہٗ اَقَامَہٗ وَ اِنْ شَاءَ اَنْ یُّزِیْغَہٗ اَ زَاغَہٗ؎ ترجمہ: نہیںہے کوئی قلب مگر وہ اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہے۔ اگر چاہے قائم رکھے حق پر، اگر چاہے ٹیڑھا کرنا تو ٹیڑھا کر دے۔حسنِ خاتمہ نصیب ہونے کا طریقہ حضرت تھانویرحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ گاہ گاہ اللہ تعالیٰ کے عاشقوں کے پاس جاتے رہو اور ان کی صحبت میں رہو۔ یہ ہے کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ اَیْ خَالِطُوْھُمْ لِتَکُوْنُوْا مِثْلَھُمْ ؎ (کَذَا فِیْ رُوْحِ الْمَعَانِیْ)جس ولی کے پاس طالب رہتا ہے اس کی صحبت کی برکت سے ویسا ہی ولی بن جاتا ہے، حسنِ خاتمہ جس طرح اللہ والوں کی محبت اور صحبت سے نصیب ہوتا ہے اسی طرح ان کی عداوت سے سوئے خاتمہ کا اندیشہ ہوتا ہے۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ روح المعانی میں اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ------------------------------