خزائن القرآن |
|
کہ اپنے کمالات کو اپنے مجاہدات کا ثمرہ نہ سمجھنا چاہیے اس کی دلیل قرآن ِپاک سے یہ ہے ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُکہ جو لوگ مجھ سے محبت کرتے ہیں اور مسلمانوں کے سامنے پستی وخاکساری اختیار کرتے ہیں اور کافروں کے اوپر سخت ہیں اور میری راہ میں تکلیفیں اٹھاتے ہیں اور سارے جہان کی ملامتوں سے نہیں ڈرتے یہ ان کا ذاتی کمال نہیں ہے بلکہ میرا کرم، میری مہربانی ، میرا فضل ہے جس کو چاہتا ہوں عطا کرتا ہوں۔ آگے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:وَ اللہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ۔واسعٌ اور علیمٌ کا ربط یہاں یہ دو اسم وَاسِعٌ اور عَلِیْمٌ کیوں نازل فرمائے؟ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ وَاسِعٌ کے معنی ہیں کثیر الفضل۔ وَاسِعٌ اس لیے نازل کیا کہ کہیں میرے بندے یہ نہ سوچیں کہ جب فضل سب پر تقسیم ہوجائے گا تو ہم کو کہاں سے اللہ میاں اتنا فضل دیں گے۔ اسی لیے یہاں وَاسِعٌ نازل فرمایا کہ میرا فضل تھوڑا سا نہیں ہے، میں کثیر الفضل ہوں۔ میرے پاس فضل کا اتنا خزانہ ہے کہ لَا یَخَافُ نَفَادَ مَا عِنْدَہٗ میں اللہ ہوں اور مجھے اپنے فضل کے ختم ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں۔ یہ عبارت روح المعانی کی ہے۔ وَ اللہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ کی تفسیر کی اَیْ کَثِیْرُ الْفَضْلِ لَا یَخَافُ نَفَادَ مَا عِنْدَہٗ مِنَ الْفَضْلِاللہ تعالیٰ کے پاس اتنا فضل ہے کہ اللہ کبھی اپنے فضل کے ختم ہونے کا اندیشہ نہیں کرتا، غیر محدود فضل ہے کہ اگر ساری کائنات پر تقسیم کردے تو بھی کمی نہیں ہو گی۔ اور عَلِیْمٌ کے معنیٰ کیا ہیں اَیْ عَلِیْمٌ بِۢاَھْلِہٖ وَمَحَلِّہٖ؎ اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میرے فضل کے کون لوگ اہل ہیں اور کس محل میں مجھ کو اپنا فضل کرنا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے فضل کا اہل بھی بنا دے اور محل بھی بنا دے۔ جب وہ فضل کرتا ہے تو خود ہی سب کچھ بنا دیتا ہے ؎ حسن کا انتظام ہوتا ہے عشق کا یوں ہی نام ہوتا ہے آخری آیتوَاللہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ کی تشریح کے لیے کہ اللہ کے فضل کا کون اہل اور محل ہے، مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ایک شعر سن لیجیے سب مطلب سمجھ میں آ جائے گا۔ وہ کیا شعر ہے ؎ سن لے اے دوست! جب ایّام بھلے آتے ہیں گھات ملنے کی وہ خود آپ ہی بتلاتے ہیں ------------------------------